سندھ حکومت ’گجو اور بلو‘ مچھلی جالوں پر پابندی کیوں لگانا چاہتی ہے؟

سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیری محکموں کے حکام نے وزیراعلی سندھ سے درخواست کی کہ ان جالوں کی درآمد کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔

کراچی کے ایک ماہی گیر عمر دبلو کا کہنا ہے کہ سمندر میں مچھلی کے شکار کے لیے مختلف سائز کے جال کا استعمال کیا جاتا ہے(امر گُرڑو / انڈپینڈنٹ اردو)

سندھ حکومت نے سندھ اور بلوچستان کے سمندر میں مچھلی کے شکار کے لیے استعمال ہونے والے ’گُجو اور بُلو‘ جال کی درآمد پر پابندی کے لیے وفاقی حکومت کو درخواست دینے کا اعلان کیا ہے۔

یہ اعلان وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بلوچستان حکومت کے محکمہ ماہی گیری کے وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔

وفد میں سیکرٹری فشریز بلوچستان، ڈائریکٹر فشریز ٹیکنیکل، مشیر لائیو سٹاک اینڈ فشریز سندھ نجمی عالم، سیکریٹری لائیو سٹاک اینڈ فشریز شامل تھے۔

سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیری کے محکموں کے حکام نے وزیراعلی سندھ کو بتایا کہ ’سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیر سمندر میں مچھلی کے شکار کے لیے گجو اور بلو نامی فشنگ نیٹ کا استعمال کرتے ہیں اور یہ جال چھوٹے سائز کے ہوتے ہیں۔

’جن میں نہ صرف چھوٹی مچھلیاں بلکہ مچھلی کے انڈے بھی آجاتے ہیں۔ ایسے فشنگ نیٹ کے استعمال کے باعث مچھلی کا ذخیرہ ختم ہو رہا ہے اور مقامی ماہی گیر بے روزگار ہو رہے ہیں۔‘

سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیری کے محکموں کے حکام نے وزیراعلی سندھ سے درخواست کی کہ ماہی گیری کے ان جالوں کی درآمد کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ’حساس گُجو اور بُلو جالوں کی درآمد پر پابندی کے لیے وفاقی حکومت سے بات کریں گے۔‘

وزیراعلی سندھ کے ترجمان عبدالرشید چنا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’گُجو اور بُلو جال انتہائی چھوٹے ہوتے ہیں۔ جن میں چھوٹی مچھلی کے ساتھ انڈے میں پکڑے جاتے ہیں۔

’یہ جال چند دہائیاں قبل سندھ میں استعمال ہونا شروع ہوئے۔ مگر اب ان جالوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے اور اب یہ بلوچستان کے ماہی گیر بھی استعمال کر رہے ہیں۔

’اتنی بڑی تعداد میں یہ جال استعمال ہونے سے سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں کے قریب مچھلی کے شکار میں واضح کمی آئی ہے۔ جس کے باعث چھوٹی کشتیوں پر مچھلی کا شکار کرنے والی مقامی ماہی گیر بے روزگار ہو رہے ہیں۔

’اس لیے اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان دونوں متنازع جالوں پر پابندی عائد کر کے ان جالوں کی درآمد پر پابندی کے لیے وفاقی حکومت سے بات کی جائے گی۔ تاکہ دونوں صوبوں میں ساحل کے قریب مچھلی کا شکار کرنے والے مقامی ماہی گیروں کو مچھلی مل سکے۔‘

مچھلی کے شکار کے لیے مختلف جالوں کا استعمال

کراچی کی ماہی گیر بستی چشمہ گوٹھ کے رہائشی عمر دبلو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سمندر میں مچھلی کے شکار کے لیے مختلف جالوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

عمر دبلو کے مطابق: ’چھوٹی یا درمیانی مچھلیوں جیسے رُہُو مچھلی کے شکار کے لیے گِل نیٹ جال کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جال پانی کی سطح پر بچھایا جاتا ہے۔ مچھلی جال کے تاروں میں پھنس جاتی ہے۔

’بڑی مچھلیوں اور جھینگوں کو پکڑنے کے لیے سیئن نیٹ نامی جال لگایا جاتا ہے۔ یہ جال ایک گول یا نیم گول شکل میں ڈالا جاتا ہے اور پانی کی سطح سے لے کر نیچے تک ہر حصے سے مچھلی پکڑتا ہے۔

’گہرے پانی میں پائی جانے والی بڑی مچھلیاں جیسے سورما، چیلہ وغیرہ کو پکڑنے کے لیے ڈریگ نیٹ نامی جال کا استعمال کیا جاتا ہے، یہ جال کشتی کے ساتھ پانی میں کھینچا جاتا ہے اور نیچے موجود مچھلیوں کو جمع کرتا ہے۔

’اس طرح مختلف قسم اور سائز کی مچھلی اور جھینگے کے شکار کے لیے مختلف جال لگائے جاتے ہیں۔ مگر گذشتہ چند دہائیوں سے بنگالی ماہی گیروں نے دو نئے جال متعارف کرائے۔ جنہیں گُجو اور بُلو کا نام دیا گیا۔‘

ان کے مطابق: ’گُجو اور بُلو جال کا ڈیزائن اس طرح ہے جیسے کپڑا ہوتا ہے۔ اور یہ تمام اقسام کی چھوٹی بڑی مچھلیوں، جھینگوں اور ان کے انڈوں کو بھی قابو کر لیتا ہے۔ یہ انتہائی حساس اور خطرناک جال تصور کیے جاتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمر دبلو کے مطابق ماضی میں سمندر میں مچھلی کا شکار کرنے والے محدود ماہی گیر تھے۔ جو روایتی اور محفوظ جالوں سے شکار کرتے تھے۔ پہلے اگر ماہی گیر بستی میں ہر گھر میں ایک فرد شکار کرنے جاتا تھا تو اب ہر گھر سے پانچ سے چھ افراد ماہی گیر بن گئے ہیں۔ اس کے علاوہ باہر کے لوگ بھی بڑی تعداد میں آگئے ہیں۔

بقول عمر دبلو: ’ایک تو ماہی گیروں کے تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور دوسرا اب ماہی گیری کے لیے جدید مشینری کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ گُجو اور بُلو جال استعمال کے باعث اب ساحل کے قریب مچھلی تقریباً ناپید ہوگئی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ان جالوں پر پانبدی عائد نہیں کی گئی تو ساحل کے قریب مچھلی مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ جس کے بعد چھوٹی کشتی پر شکار کرنے والے مقامی ماہی گیر مکمل طور پر بے روزگار ہوجائیں گے۔

گُجو اور بُلو جال اتنی تعداد میں لگائے جاتے ہیں کہ کشتیوں کا چلنا محال

ماہی گیروں کی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ’پاکستان فشر فوک فورم‘ کے رہنما کمال شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک طرف سمندری آلودگی اور کراچی جیسے بڑے شہر کے سیوریج کا پانی اور کوڑا سمندر میں پھینکنے کے باعث مچھلی کم ہوتی جا رہی ہے۔

’اس کے ساتھ گُجو اور بُلو جال کے استعمال سے مچھلی پر انتہائی منفی اثر ہوا ہے۔‘

کمال شاہ کے مطابق: ’کچھ عرصہ پہلے تک یہ جال چھوٹے پیمانے پر لگائے جاتے تھے۔ مگر اب یہ اتنی تعداد میں لگائے جاتے ہیں کہ سمندر میں کشتیوں کا چلنا محال ہو گیا۔ کیوں اب ہر جگہ یہ جال ہی لگے ہوئے ہوتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات