(غیر) آئینی پیکج کے اہم نکات

جس شکل میں یہ مسودہ سامنے آیا ہے اگر یہ منظور ہو گیا تو خدشہ ہے کہ اس سے صرف پاکستان کے آئین کا حلیہ بگڑ جائے گا۔

 30 مئی 2024 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

حکومتی اتحاد کی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کا خفیہ مسودہ غیر سرکاری طور پر منظر عام پر آ چکا ہے جس کے اکثر مندرجات کی توثیق حکومتی وزرا کی پارلیمان اور پارلیمان سے باہر اظہار خیال سے بھی ہو گئی ہے۔

اس مسودے کی تفصیلات اور شق وار جائزہ تو طوالت کا متقاضی ہے، بہرحال اگر یہ مسودہ اس طور پر منظور ہو گیا جس صورت میں یہ موصول ہوا ہے تو خدشہ ہے کہ اس سے نہ صرف پاکستان کے آئین کا حلیہ بگڑ جائے گا، بلکہ آئین کے تین سنہری اصول (عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے اختیارات میں علیحدگی اور توازن کا اصول، عدلیہ کی خودمختاری کا اصول، اور قانون کی بالادستی کا اصول) بری طرح متاثر ہوں گے۔

ان ترامیم کا سب سے بڑا ہدف ملک میں اعلیٰ عدلیہ اور اعلیٰ عدالتی نظام ہے، جس کے بعد ملک میں عدلیہ ایک کمزور، کھوکھلے اور غیر موثر ریاستی ستون کی حیثیت اختیار کر لے گی۔ مسودہ ترامیم کے مطالعہ سے (مختصراً) درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں:

1۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ ختم کر کے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک عہدہ ’چیف جسٹس، وفاقی آئینی عدالت پاکستان‘ جب کہ دوسرا ’چیف جسٹس، سپریم کورٹ پاکستان‘ تخلیق کیا گیا ہے۔ اس طرح چیف جسٹس آف پاکستان کو آئینی طور پر عدالتی نظام کے سربراہ، اس کی وحدت کے مظہر اور قاضی القضاۃ کا جو درجہ حاصل تھا وہ ختم کرنے کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔

2۔ وفاقی آئینی عدالت کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔  مسودہ میں جس عدالت کو ’وفاقی آئینی عدالت‘ کا نام دیا گیا ہے، وہ بنیادی طور پر ایک وفاقی کٹھ پتلی عدالت یا وفاقی کینگرو عدالت ہے، کیونکہ اس عدالت کی بنیادی اینٹ ہی عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے اصول کی بیخ کنی کر کے رکھی  گئی ہے۔

اس سلسلہ میں حکومتی بدنیتی واشگاف کرنے کے لیے سب سے اہم نکتہ اس عدالت میں ججوں کی تعیناتی کا مجوزہ طریقہ کار ہے۔ مجوزہ طریقہ کار کی رو سے آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار قومی اسمبلی میں موجود جماعتوں پر مشتمل آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کو دیا گیا ہے، جو سپیکر قومی اسمبلی متناسب نمائندگی کے اصول پر تشکیل دے گا۔

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ چیف جسٹس کی تعیناتی کا اصل اختیار سپیکر قومی اسمبلی کے پاس ہو گا جو اپنی مرضی سے کمیٹی تشکیل دے گا اور قومی اسمبلی میں نشستوں کی متناسب نمائندگی کی بنیاد پر چونکہ اس کمیٹی میں اکثریت حکومت یا حکومتی اتحاد کی ہو گی لہٰذا چیف جسٹس وہی بنے گا جسے حکومت بنانا چاہے گی۔ یہ طریقہ کار مستقبل کے لیے ہے، پہلی بار چیف جسٹس اور دیگر ججوں کی تعیناتی کا سپیشل فارمولا ہے جو اگلے فقرہ میں بیان کیا گیا ہے۔

3۔ اس آئینی عدالت کا پہلا چیف جسٹس اور پہلے ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار عدالتی نظام پر سب سے بڑا شب خون ہے۔ پہلا چیف جسٹس محض وزیر اعظم کی سفارش پر صدر پاکستان تعینات کرے گا، اور بقیہ جج بھی  وزیر اعظم چیف جسٹس کی مشاورت سے تعینات کرے گا۔

اس طرح مکمل پیش بندی کی گئی ہے کہ آئینی عدالت کا چیف جسٹس اور دیگر جج جناب شہباز شریف کی مرضی سے لگائے جائیں۔ کیونکہ عملاً یہ کام انہی کے ذریعے ہونا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

4۔ اسی طرح مستقبل کے لیے یہ بھی مستقل طور پر طے کر دیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہو یا وفاقی آئینی عدالت کا چیف جسٹس دونوں کی تعیناتی آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے، جس میں اکثریت متناسب نمائندگی کے اصول کے تحت یقینی طور پر حکومت یا حکومتی اتحاد کی ہو۔

چیف جسٹس کی تعیناتی کی حد تک اپوزیشن اور حکومت کے ارکان کی تعداد کی برابری کا اصول بھی ختم کر دیا گیا ہے۔ اس طرح چیف جسٹس چاہے سپریم کورٹ کا ہو یا وفاقی آئینی عدالت کا، پارلیمان کے نام پر دونوں ہی عملاً حکومت تعینات کرے گی۔ لہٰذا اب چیف جسٹس بننے کی دوڑ میں ہر جج حکومت کو رام کرنے پر مجبور ہو گا، اور عوام آزاد منش ججوں اور انصاف کو ترسیں گے۔

5۔ آئینی مسودہ کی دفعات کے مطالعہ سے یہ بھی واضح ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے ججوں کی تعداد کسی صورت سات سے کم نہیں ہو سکتی۔ ان ججوں کی مدت ملازمت اڑسٹھ سال کی عمر تک ہو گی۔ جبکہ سپریم کورٹ کا جج پینسٹھ برس کی عمر میں ہی ریٹائر ہو گا۔ چیف جسٹس (سپریم کورٹ یا وفاقی عدالت) کے عہدے کی کم سے کم معیاد تین سال ہو گی، بشرطیکہ وہ اس سے قبل ہی ریٹائرمنٹ کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔

6۔ سپریم کورٹ کسی آئینی مقدمے کی سماعت نہیں کر سکے  گی اور نہ ہی کوئی آئینی اپیل سن سکے گی۔ وہ صرف دیوانی، فوجداری، ٹیکس، سروس یا شرعی اپیلوں کی سماعت اس حد تک کر سکے گی کہ آئین کی تشریح کا سوال نہ ہو، اگر ان اپیلوں کی سماعت کے دوران بھی آئین کی تشریح کا سوال پیدا ہو جائے تو معاملہ آئینی عدالت کو بھجوایا جائے گا۔

7۔  دفعہ 184 کے تحت اویجنل اختیار سماعت (از خود نوٹس) کے تمام اختیارات سپریم کورٹ کے دائرہ سے نکال کر وفاقی آئینی عدالت کو منتقل کر دئیے جائیں گے۔ اور آئین کی تشریح کا کوئی بھی معاملہ ہو، اس کا کوئی اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں ہو گا۔ اسی طرح آئین کی دفعہ 187 کےتحت سپریم کورٹ کو حاصل اختیار کہ وہ مکمل انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی بھی حکم جاری کر سکتی ہے، اسے بھی محدود کر دیا گیا ہے۔ اپنے فیصلوں کے خلاف اپیل سننے کا قدرے محدود اختیار بھی وفاقی آئینی عدالت کو ہی حاصل ہو گا۔

8۔ وفاقی آئینی عدالت ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت کا درجہ حاصل کرنے کے باوجود ’ملکی سلامتی‘ سے متعلق کسی قانون یا اس قانون کے تحت کسی اختیار کے استعمال کرنے والے شخص کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کر سکے گی۔ اسی طرح ہائیکورٹ کے آئین کی شق  199 کی ذیلی شق 3 میں عائد کردہ قدغن کو مزید بڑھا کر یہ طے کر دیا گیا ہے کہ ملکی سلامتی سے متعلق کسی قانون یا فرد کے اقدامات کے خلاف ہائیکورٹ کو کوئی اختیار حاصل نہ ہو گا۔ اس ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس کے مقدمات اور سزاؤں، ایجینسیوں کی تحویل میں افراد یا ملکی سیکیورٹی کے عنوان کے تحت کسی بھی قانون پر پاکستان کی آئینی عدالتوں کو کوئی اختیار نہ ہو گا۔ اس سے انتظامیہ اور افواج کو وہ لامحدود اختیارات حاصل ہونگے، جس کا تصور بھی محال ہے۔ اور بنیادی انسانی حقوق کی بنیاد پر عدالتوں تک رسائی ناممکن ہو جائے گی۔

جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی تشکیل نو ہو گی۔ جس میں پارلیمانی کمیشن کو ضم کر دیا گیا ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی سربراہی چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت کے پاس ہو گی۔ اور اسی عدالت کے دو سینیئر جج بھی اس میں شامل ہوں گے۔ یاد رہے کہ یہ وہی جج ہوں گے جو شہباز شریف تعینات کریں گے۔

اس کے علاوہ اس کمیشن میں براہ راست حکومتی نمائندوں کی تعداد چار بنتی ہے۔ اس طرح 13 رکنی کمیشن میں سات افراد براہ راست حکومت کے ہمنوا ہوں گے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بھی وہی موجود ہو گا جسے پارلیمانی کمیٹی نے تعینات کیا ہو گا۔ لہٰذا یہ امر تقریباً ممکن بنایا گیا ہے کہ آئندہ کوئی بھی جج حکومتی مرضی کے بغیر تعینات نہ ہو سکے۔ اس طرح صورت حال کچھ یوں ہے کہ کمیشن ہے بھی اور کمیشن نہیں بھی ہو گا۔

10۔ کمیشن کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ ہائیکورٹ کے ججوں کو ملک میں کہیں بھی ٹرانسفر کر سکے۔ مطلب بلوچستان میں پنجاب اور کے پی میں سندھ سے جج بھیجے جا سکیں گے۔ اور یہ کون نہیں جانتا کہ فوری اور اصل ہدف تو اسلام آباد ہائیکورٹ ہی ہے لیکن یہ آگ پورے ملک تک پھیلائی جائے گی تا کہ کوئی بھی سانس نہ لے سکے۔

منتقلی پر ان ججوں کی سینیارٹی تو برقرار رہے گی لیکن وہ اس صوبہ میں چیف جسٹس نہیں بن سکیں گے۔ یہ ترمیم نہ صرف ججوں کی آزادی کو متاثر کرے گی، بلکہ ان کے لیے ایک تازیانہ کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ اور صوبائی خودمختاری کے اصول پر بھی حملہ ہے۔

ان ترامیم کا براہ راست اثر پاکستان کی عوام پر پڑے گا۔ عوام کے بنیادی حقوق کا کوئی محافظ نہیں ہو گا۔ عدل و انصاف اشرافیہ کی خیرات بن جائے گا۔ اور غلامی کی ایک نہ ختم ہونے والی سیاہ رات کا آغاز ہو گا۔

 

11۔ آئین کی دفعہ 190 کے تحت ملک کے تمام ادارے سپریم کورٹ سے تعاون کے پابند ہیں، نئی ترمیم کی روشنی میں وہ اب سپریم کورٹ کے بجائے صرف وفاقی آئینی عدالت کے تعینات کردہ حکومتی ججوں کے پابند ہوں گے۔

12۔ جوڈیشیل کمیشن کے پاس ہائی کورٹ کے ججوں کی کارکردگی جانچنے کے لامحدود اختیارات ہوں گے اور اگر کوئی جج اپنی کارکردگی سے کمیشن کو متاثر نہ کر سکا تو کمیشن اس کی برطرفی کی سفارش سپریم جوڈیشیل کونسل کو بھیج سکے گا جو اس کے خلاف کارروائی کرے گی۔

13۔ الیکشن کمیشن: چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے ارکان کو ان کی وفاداریوں کے عوض یہ تحفظ دیا گیا ہے کہ ان کی مدت کے اختتام کے بعد جب تک نیا چیف الیکشن کمیشنر یا ممبران  تعینات نہیں ہوتے وہ اپنی تاریخی ’خدمات‘ سرانجام دیتے رہیں گے، اور اس سے بھی بھیانک یہ ہے کہ چیف الیکشن کمیشنر اور ممبران کو پارلیمان میں محض ایک قرارداد منظور کر کے اگلی مدت کے لیے بھی تعینات کیا جا سکے گا۔ پارلیمان  کی ایک قرارداد ملک میں الیکشن، جمہوریت اور الیکشن کے نتیجے میں رونما ہونے والے تمام آئینی اور جمہوری عمل پر حاوی ہو گی۔

14۔ افواج کے سربراہان کے استثنیٰ، دوبارہ تعیناتی اور مدت ملازمت کے قانون کو آئینی تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے۔

یہ مجوزہ  ترامیم سپریم کورٹ، ہائی کورٹس، الیکشن کمیشن، جوڈیشیل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل جیسے اہم آئینی اداروں پر حکومتی غلبہ، کنڑول اور مستقل نفوذ کی ایسی جسارت ہے کہ جس نے ملک میں آئین و قانون کے طالب علموں، جمہوریت پسندوں اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والوں کے سر شرم سے جھکا دیے ہیں۔

ان ترامیم کا براہ راست اثر پاکستان کی عوام پر پڑے گا۔ عوام کے بنیادی حقوق کا کوئی محافظ نہیں ہو گا۔ عدل و انصاف اشرافیہ کی خیرات بن جائے گا۔ اور غلامی کی ایک نہ ختم ہونے والی سیاہ رات کا آغاز ہو گا۔

لازم ہے کہ ہم سب مل کر ان مجوزہ ترامیم کا راستہ روکیں۔ جنہوں نے آئین کی حفاظت کا حلف اٹھا رکھا ہے، ان کی کوتاہی کی سزا نسلیں بھگتیں گی۔

نوٹ: عمران شفیق ایڈووکیٹ ماہرِ قانون ہیں اور آئینی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر