سندھ کے علاقے عمر کوٹ میں توہین مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کی مبینہ پولیس مقابلے میں موت کے بعد لاش جلانے کی سوشل میڈیا رپورٹس پر سندھ پولیس نے کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
ڈاکٹر شاہ نواز پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنے فیس بک پر توہین آمیز مواد اپ لوڈ کیا، جس کے بعد علاقہ مکینوں کے احتجاج پر ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔
18 اور 19 ستمبر کی درمیانی شب ان کی میرپور خاص ضلعے کے سندھڑی تھانے کی حدود میں مبینہ پولیس مقابلے میں موت کی خبر سامنے آئی۔
ان کی لاش کو مشتعل افراد کی جانب سے تدفین نہ کرنے دینے اور لاش کو مبینہ طور پر آگ لگانے کی خبر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
ملزم کی لاش جلائے جانے کی خبروں پر سندھ حکومت نے جمعے کو واقعے کی غیر جانبدارنہ انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی۔
وزات داخلہ سندھ کے مطابق وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے اس واقعے کے بعد انسپیکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) سندھ سے رابطہ کیا۔
وزیر داخلہ کے ترجمان کے بیان میں بتایا گیا کہ ضیا الحسن لنجار نے آئی جی سندھ کو غیر جانبدارانہ انکوائری کے لیے ڈی آئی جی رینک کے افسر کو نامزد کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’واقعے کی مکمل تحقیق اور چھان بین اور تفتیش کو غیرجانب دار بناتے ہوئے ہر ممکن قانونی کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔‘
اس پر آئی جی سندھ نے واقعے کی تحقیق کے لیے ڈی آئی جی شہید بینظیر آباد کی سربراہی میں چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی جس کے سربراہ ڈی آئی جی شہید بینظیر آباد پرویز چانڈیو ہوں گے۔
کمیٹی کے دیگر اراکین میں ڈی آئی جی حیدرآباد طارق دھاریجو، سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) بدین شیراز نذیر شامل ہیں۔
نوٹیفکیشن کے مطابق کمیٹی سات روز کے اندر رپورٹ پیش کرے گی۔
پولیس کی خاموشی
ڈاکٹر شاہ نواز کی لاش کو جلائے جانے کی خبروں کی تصدیق کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) عمرکوٹ آصف رضا سے رابطہ کیا مگر انہوں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
تاہم ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس برانچ (ڈی آئی بی) عمرکوٹ کے انچارج غلام مصطفی نے کہا کہ ’آئی جی سندھ نے اس معاملے پر اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جو تمام پہلوؤں سے تفتیش کرے گی۔
’اس کمیٹی کی تشکیل کے باعث پولیس کو اس کیس کے کسی بھی پہلو پر بیان جاری دینے سے روک دیا گیا ہے۔‘
سینیئر پولیس افسر معطل
وزیر داخلہ سندھ ضیاالحسن النجار نے اس واقعے پر ڈی آئی جی میرپورخاص، ایس ایس پی میرپورخاص اور ایس ایچ او سندھڑی کو معطل کردیا۔
آئی جی سندھ نے آج ایک نوٹیفیکشن جاری کرتے ہوئے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) میر پور خاص کیپٹن (ر) اسد علی چوہدری کا تبادلہ کر دیا اور انہیں سینٹرل پولیس آفس کراچی میں رپورٹ کرنے کو کہا ہے۔
ان کی جگہ میرپورخاص ضلع کا اضافی چارج اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی ) تھرپارکر شبیر احمد سیٹھار کے حوالے کر دیا گیا۔
’ماروائے عدالت قتل میں ملوث پولیس افسران کے خلاف مقدمہ کیا جائے‘
جوائنٹ ایکشن کمیٹی، انسانی حقوق کے محافظوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ایک گروپ نے ایک بیان میں واقعے کو ماورائے عدالت، حراست کے دوران موت قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی اور وزیر اعلیٰ سندھ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر داخلہ سندھ سے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعہ کی دوپہر نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس سندھ کے دفتر میں انسانی حقوق کے محافظوں کے ایک اجلاس میں، سندھ کی سول سوسائٹی نے محکمہ داخلہ سندھ کی طرف سے آج جاری کردہ پولیس انکوائری کو مسترد کیا اور تمام پولیس افسران کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا۔
جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ایک بیان میں یورپین کمیشن، امریکہ اور دیگر سفارت خانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ایسے بدنام زمانہ پولیس افسران کو ویزے اور سکالرشپ نہ دیں، جو ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہیں اور انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتے۔
عمر کوٹ میں توہین مذہب کا معاملہ کیا ہے؟
عمرکوٹ ضلع کے گاؤں جاہینرو کے رہائشی 40 سالہ ڈاکٹر شاہ نواز کے خلاف 17 ستمبر کو توہین مذہب کا مقدمہ مقامی مسجد کے پیش امام کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
ڈاکٹر شاہنواز سول ہسپتال عمرکوٹ میں 18ویں گریڈ کے سرکاری ملازم تھے۔ ان پر مقدمے کے بعد ہسپتال کے ایم ایس نے انھیں ملازمت سے برخاست کر دیا تھا۔
مقدمے کے اندراج کے بعد سوشل میڈیا پر ڈاکٹر شاہنواز کا ایک ویڈیو بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ جس فیس بک پروفائل سے توہین آمیز مواد پوسٹ کیا گیا وہ فیس بک آئی ڈی بہت پرانی ہے، جسے وہ استعمال نہیں کرتے۔
انہوں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ’پولیس، ایف آئی اے یا رینجرز کو اپنا کام کرنے دیں، ہر چیز واضح ہوجائے گی۔‘
18 اور 19 ستمبر کی درمیانی شب ان کی میرپورخاص ضلع کے سندھڑی تھانے کی حدود میں مبینہ پولیس مقابلے میں موت کی خبر آئی تھی۔
ان کی موت سے قبل 17 اور 18 ستمبر کو عمر کوٹ میں توہینِ مذہب کے مبینہ واقعے کے خلاف مشتعل لوگوں نے پرتشدد احتجاج کرتے ہوئے پولیس موبائل اور آگ لگانے کے ساتھ ڈاکٹر شاہ نواز کے نجی کلینک میں بھی توڑ پھوڑ کی تھی۔
مبینہ پولیس مقابلے کے بعد ان کی لاش کو مشتعل افراد کی جانب سے تدفین نہ کرنے دینے اور اسے مبینہ طور پر آگ لگانے کی خبر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔
جس کے بعد وزیر داخلہ سندھ نے واقعے کی تحقیق کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی۔
انسانی حقوق کمیشن کا واقعے کی تحقیق کا مطالبہ
انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے حالیہ دنوں توہین مذہب کے دو ملزمان کو مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کرنے پر گہری تشویش کرتے ہوئے ان واقعات کی تحقیق کا مطالبہ کیا ہے۔
ایچ آر سی پی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: ’کوئٹہ میں ایک ہوٹل کے مالک کو حراست میں قتل کیا گیا۔ اس کے بعد عمرکوٹ میں ڈاکٹر کو پولیس چھاپے کے دوران قتل کیا گیا۔
’توہین مذہب کے معاملات میں اس قسم کے تشدد کا رجحان، جس میں مبینہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اہلکار ملوث ہیں، ایک تشویشناک صورت حال ہے۔
’حکومت کو عمرکوٹ میں ڈاکٹر کی موت کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے ایک آزادانہ تحقیقات کرانی چاہیے اور یہ یقینی بنانا چاہیے کہ مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
’ریاست بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کا سدباب کرے، ریاست کی جانب سے انتہاپسندی کی سرپرستی کے باعث اس قسم کے واقعات جنم لیتے ہیں۔‘
مبینہ پولیس مقابلے کے بعد پولیس اہلکاروں کو پھولوں کے ہار، سوشل میڈیا پر تنقید
مبینہ توہین مذہب کے مقدمے میں نامزد ڈاکٹر شاہنواز کی میرپورخاص پولیس کے ہاتھوں مبینہ پولیس مقابلے میں موت کے بعد پولیس افسران کو مختلف لوگوں کی جانب پھولوں کے ہار پہنانے کی ویڈیوز سامنے آنے پر سوشل میڈیا صارفین پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
’ڈاکٹر شاہ نواز کئی سالوں سے نفسیاتی ادویات استعمال کررہے تھے‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر شاہ نواز کے گاؤں جاہینرو کے رہائشی اور ان کے قریبی رشتہ دار علی (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ’وہ برطانیہ کے ڈاکٹر کی تجویز کردہ نفسیاتی ادویات لے رہے تھے۔ 2021 میں وہ کراچی کے ڈاؤ ہسپتال میں بھی زیر علاج رہے۔‘
علی کے مطابق: ’نفسیاتی ادویات کے باعث ان کی شوگر لیول بڑھ جاتی تھی۔ کچھ عرصہ قبل ان کا حادثہ ہوا۔ شوگر کے باعث زخم ٹھیک نہیں ہو رہے تھے، اس لیے انہوں نے ادویات لینا بند کر دی تھی۔‘
علی کے مطابق: ’مقدمے کے بعد پولیس نے ڈاکٹر شاہ نواز کے والد کو حراست میں لیا تھا اور ان کے والد نے پولیس کو بتایا کہ وہ کراچی کے سچل گوٹھ یا لیاری میں ہوں گے اور ان کے دوستوں کے موبائل نمبر بھی دیے تھے۔‘
بقول علی : ’ڈاکٹر شاہ نواز کا نمبر مسلسل بند تھا۔ پولیس نے ان کے دوستوں کے نمبر ٹریس کر کے انہیں حراست میں لیا۔ جس کے بعد کہا کہ وہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
’لاش گاؤں آنے پر لوگوں نے ایمبولینس کو گاؤں میں آنے نہیں دیا۔ جس کے بعد ان کے گھر کے چند افراد لاش لے کر تھر نبی، چیلہار، چیل بند اور دیگر شہروں میں گئے، مگر مشتعل افراد نے لاش کو دفن کرنے نہیں دیا۔
’جس کے بعد ڈاکٹر کے والد ان کی لاش اپنی زمیںوں میں لے گئے، جہاں مشتعل افراد نے لاش کو آگ لگا دی۔ لاش 50 فیصد جل گئی تھی، جس کے بعد پولیس بھی پہنچ گئی اور اس کے بعد آدھی جلی لاش کو دفنا دیا گیا۔‘