انسان دوستوں کے علاوہ لطیفوں سے بھی پہچانا جاتا ہے

انگریزی کا محاورہ تھا کہ آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے، ٹھیک تھا لیکن اب انسان اپنے لطیفوں کی چوائس اور سوشل میڈیا کے استعمال سے بھی باآسانی پہچانا جاتا ہے۔

کان اور آنکھ کب سیکھیں گے؟ جب وقت سمجھائے گا کہ میاں یہ لطیفہ باقاعدہ فلاں بندے کا دل دکھا سکتا ہے تو آپ اکیلے میں بھی اس پر کیوں ہنستے ہیں؟ (انواتو ایلیمنٹس)

ہم مذاق میں وہی کچھ کہتے ہیں جو سنجیدگی کے وقت دراصل کہنا چاہتے ہیں۔

ہمیں خوف ہوتا ہے کہ ہماری بات سن کے سامنے والا ناراض ہو جائے گا، وہ سمجھے گا کہ یہ پرانے دماغ کا ہے، یا اس کی سوچ نیچی ہے، تو ہم خود کو بچانے کے لیے وہ ساری باتیں دبا لیتے ہیں۔

بعد میں جیسے ہی کہیں جگت بازی کا سین ملتا ہے یا اسی طرح کا لطیفہ کوئی سامنے آتا ہے جیسی ہماری سوچ چل رہی ہوتی ہے تو بس بے تاب ہو کے وہ ہم یاد کر لیتے ہیں اور موقع ملنے پہ فٹافٹ اگل بھی دیتے ہیں۔

پی کر انسان جو باتیں کرتا ہے، عام حالات میں وہی باتیں لطیفوں کے ذریعے کہنے کی کوشش کرتا ہے۔

یہ کہنا غلط ہے کہ اب دور بدل گیا ہے اور بندہ کوئی لطیفہ بھی نہیں سنا سکتا کہ خواتین مائند کر جائیں گی یا کسی خاص مذہب / ذات والے کو برا لگے گا، نہ، دور نہیں بدلا دماغوں کو صحیح غلط کی تمیز آ گئی ہے، اب بچوں کو باآسانی علم ہو جاتا ہے کہ رانگ نمبر کون ہے۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو ایک اچھا انسان سمجھا جائے، مہذب اور تعلیم یافتہ جانا جائے، دوسرے آپ کے آس پاس سکون محسوس کریں تو مزاج سے پہلے اپنے لطیفوں کو ٹھیک کر لیں۔

انگریزی کا محاورہ تھا کہ آدمی اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے، ٹھیک تھا لیکن اب انسان اپنے لطیفوں کی چوائس اور سوشل میڈیا کے استعمال سے بھی باآسانی پہچانا جاتا ہے۔

اکیلے میں کوئی بھی ہلکا لطیفہ سن کے ہنسنا عین ویسا ہے جیسے تنہائی میں کوئی ایسا کام کرنا جو ہم دوسروں کے آگے نہیں کر سکتے، سنیں، ہنسیں، اس دوست سے شیئر کریں جو آپ ہی کے دماغ والا ہو، مجبوری ہے؛ لیکن اگر آپ کہیں کہ آپ کو سوشل میڈیا کے لاؤڈ سپیکر پہ وہی کہنا ہے جو آپ کا دل کرتا ہے تو یہ دل مروا دے گا استاد ۔۔۔ لطیفہ سنائیں تاکہ آپ پہچانے جائیں، اب بس یہی چلتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آنکھوں اور کانوں کی ٹریننگ کرنا پڑتی ہے، بہت وقت لگتا ہے، بندہ سادھو سنت فقیر ہو جائے پھر بھی یہ دونوں بہک بہک جاتے ہیں، موقعے دستور کا لحاظ نہیں کرتے، تب ایک وقت آتا ہے کہ خود بخود انسان تھم جاتا ہے، دل بھر جاتا ہے، سمجھیے کچھ کچھ عقل آ جاتی ہے لیکن زبان، اسے قابو رکھنا تب بھی بہت مشکل ہوتا ہے، اس کا حل کیا ہے؟

کم بولیں، بہت کم بولیں، بات نہ کریں، منہ سے نکل جائے تو پوری نپی تلی ہو، چول نہ ہو، بس یہی ممکن ہے۔

نپا تلا کیسے بولیں گے؟ جب دماغ میں جگہ ہو گی۔

جگہ کیسے ہو گی؟ جب کان اور آنکھ سیکھ جائیں گے۔

کان اور آنکھ کب سیکھیں گے؟ جب وقت سمجھائے گا کہ میاں یہ لطیفہ باقاعدہ فلاں بندے کا دل دکھا سکتا ہے تو آپ اکیلے میں بھی اس پر کیوں ہنستے ہیں؟

تو بس اپنا کام وہ بتانا تھا جو آج تک خود کو سمجھ آیا۔ آگے آپ جانیں آپ کا مذاق!

مولا ہنستا بستا رکھے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ