ہالی وڈ کی اداکارہ میریل سٹریپ نے پیر کو اقوام متحدہ میں کہا ہے کہ طالبان کے زیر اقتدار افغانستان میں آج ایک مادہ بلی کو ایک عورت کے مقابلے میں زیادہ آزادی حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آج کابل میں ایک مادہ بلی کو عورت سے زیادہ آزادی حاصل ہے۔ ایک بلی اپنے گھر سامنے کی سیڑھی پر بیٹھ سکتی اور اپنے چہرے پر دھوپ محسوس کر سکتی ہے۔ وہ پارک میں گلہری کا پیچھا کر سکتی ہے۔ آج افغانستان میں گلہری کو لڑکی سے زیادہ حقوق حاصل ہیں کیونکہ طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کے لیے پارک بند کر دیئے ہیں۔‘
انہوں نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر ’افغانستان کے مستقبل میں خواتین کی شرکت‘ کے عنوان سے ایک تقریب میں متعدد ممتاز افغان خواتین کارکنوں کے ساتھ شرکت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کابل میں ایک پرندہ گا سکتا ہے، لیکن ایک لڑکی نہیں اور ایک عورت عوامی مقام پر نہیں گا سکتی۔ یہ غیر معمولی ہے. یہ قدرتی قانون کو دبانا ہے۔
انہوں نے افغان خواتین کے لیے طالبان کے حالیہ حکم نامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ عجیب بات ہے،‘ اس حکم نامے میں عوامی مقامات پر خواتین کی آواز اور موجودگی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
طالبان نے افغانستان میں خواتین، جو کہ کل آبادی کا نصف ہیں، کے ہائی سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ یہ ملک پر اپنے 90 کی دہائی کی حکمرانی کو دُہراتے ہوئے خواتین کو کام کرنے سے بھی روکتے ہیں۔
افغان خواتین کو اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے اور ان کے ساتھ مرد سرپرست، والد یا شوہر (محرم) ہونا ضروری ہے یا مقامی طالبان رہنماؤں کی طرف سے سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں عوامی پارکوں، جم خانوں اور سیلونوں میں جانے سے بھی روک دیا گیا ہے، جن میں سے زیادہ تر اگست 2021 سے افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے بند ہیں۔
سٹریپ نے کہا کہ ’اس طرح کہ ۔۔۔ اس معاشرے کو الٹ دیا گیا ہے، یہ دنیا کے باقی حصے کے لیے ایک سبق آموز کہانی ہے۔‘ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے خواتین کی خاطر مداخلت کرنے کی اپیل کی تاکہ ’آبادی کے پورے نصف حصے کی سست موت کو روک سکیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا، ’مجھے لگتا ہے کہ جب سے طالبان نے افغانستان میں 100 سے زیادہ احکامات جاری کیے ہیں، خواتین اور لڑکیوں کو ان کی تعلیم اور روزگار، ان کے اظہار رائے اور نقل و حرکت کی آزادی سے محروم کر دیا ہے، انہوں نے اپنی آدھی آبادی کو مؤثر طریقے سے قید کر رکھا ہے۔‘
متعدد ایوارڈ یافتہ اداکارہ نے سنی برادری کے ممالک سے بھی مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ طالبان ایک سنی اسلامی تحریک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
سٹریپ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ 1970 کی دہائی میں افغانستان کے سرکاری ملازمین میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں ، ملک کے اگلی پانچ دہائیوں میں جنگوں میں ڈوبنے سے قبل۔
طالبان نے افغان خواتین کے خلاف سخت احکامات پر غیر ملکی تنقید کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے افغانستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ تاہم بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس گروپ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا ہے جس نے طالبان رہنماؤں سے خواتین کے بنیادی انسانی حقوق بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی شرعی قانون کی تشریح کے مطابق حقوق کا احترام کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گویتریش نے کہا کہ ’تعلیم یافتہ خواتین کے بغیر، ملازمتوں میں خواتین کے بغیر، قیادت کے کردار کے بغیر، اور اپنی نصف آبادی کے حقوق اور آزادیوں کو تسلیم کیے بغیر، افغانستان کبھی بھی عالمی سطح پر اپنا جائز مقام حاصل نہیں کر سکے گا۔‘
© The Independent