سندھ کے شہر عمرکوٹ میں چند روز قبل توہین مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کی مبینہ پولیس مقابلے میں موت کے خلاف بدھ کو خواتین سمیت بڑی تعداد میں لوگوں نے عمرکوٹ پریس کلب کے سامنے احتجاجی ریلی نکالی۔
اس ریلی میں سندھ کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے لوگوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ ریلی کے بعد مختلف سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے شرکا سے خطاب کیا۔ سماجی رہنما سندھو نواز گھانگھرو نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ریلی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر شاہ نواز کو جھوٹے پولیس مقابلے میں مارنے کے بعد ان کی لاش کو جلانے کی کوشش کی گئی، جس کی وجہ سے عمرکوٹ میں خوف کی انتہائی صورتحال ہے۔‘
’اس لیے آج لوگوں نے جمع ہوکر ریلی نکالی، تاکہ مقامی لوگوں کو خوف سے نکالا جائے۔‘
شرکا نے ڈاکٹر شاہ نواز کے ورثا کو انصاف دلانے اور سندھ میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف نعرے لگائے۔ انہوں نے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے ہوئے اس واقعے میں ملوث پولیس افسران کی نوکری ختم کرنے اور ان کے خلاف مقدمہ چلانے کا بھی مطالبہ کیا۔
اس واقعے کے خلاف منگل کو دائر مقدمے میں نامزد 34 ملزمان میں سے نو ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میرپور خاص میں پیش کیا گیا، جہاں عدالت نے انہیں سات دن کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا۔
ڈاکٹر شاہ نواز کا واقعہ کیا تھا اور اب تک کیا ہوا؟
عمرکوٹ کے گاؤں جاہینرو کے رہائشی 40 سالہ ڈاکٹر شاہ نواز کے خلاف 17 ستمبر کو توہین مذہب کا مقدمہ مقامی مسجد کے پیش امام کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر شاہ نواز سول ہسپتال عمرکوٹ میں 18ویں گریڈ کے سرکاری ملازم تھے۔ مقدمے کے بعد ہسپتال کے ایم ایس نے انہیں ملازمت سے برخاست کر دیا تھا۔
مقدمے کے اندراج کے بعد سوشل میڈیا پر ڈاکٹر شاہ نواز کا ایک ویڈیو بیان سامنے آیا تھا، جس میں انہوں نے وضاحت کی کہ جس فیس بک پروفائل سے توہین آمیز مواد پوسٹ کیا گیا، وہ ان کی نہیں بلکہ ایک پرانی آئی ڈی ہے، جسے وہ استعمال نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا، ’پولیس، ایف آئی اے یا رینجرز کو اپنا کام کرنے دیں، ہر چیز واضح ہو جائے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
18 اور 19 ستمبر کی درمیانی شب، ان کی میرپورخاص ضلع کے سندھڑی تھانے کی حدود میں مبینہ پولیس مقابلے میں موت کی خبر آئی۔ اس سے پہلے 17 اور 18 ستمبر کو عمرکوٹ میں توہینِ مذہب کے واقعے کے خلاف مشتعل لوگوں نے پرتشدد احتجاج کیا، جس میں پولیس کی موبائل کو آگ لگا دی گئی اور ڈاکٹر شاہ نواز کے نجی کلینک میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
ڈاکٹر شاہ نواز کی موت کے بعد پولیس افسران کی ویڈیوز سامنے آئیں، جن میں انہیں مختلف لوگوں کی جانب سے پھولوں کے ہار پہنائے جا رہے تھے، جس پر سوشل میڈیا صارفین نے پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ سندھ کے وزیر داخلہ ضیاالحسن النجار نے اس واقعے پر متعدد پولیس افسران کو معطل کر دیا۔
21 ستمبر کو کراچی پریس کلب میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران انسانی حقوق کے کارکنان نے میرپورخاص کے پولیس مقابلے کو ’جعلی‘ قرار دیا اور وزارت داخلہ سندھ کی جانب سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی کو رد کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے ڈی آئی جی میرپور خاص اور دیگر ملوث افسران کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
22 ستمبر کو مختلف شہروں سے سینکڑوں افراد، جن میں قوم پرست رہنما، سماجی کارکن اور صوفی فن کار شامل تھے، ڈاکٹر شاہ نواز کے گاؤں جاہینرو پہنچے۔ انہوں نے ڈاکٹر شاہ نواز کے خاندان کے ساتھ فاتحہ خوانی کی اور اس واقعے کی تفصیلات معلوم کیں۔
اس کے بعد، تمام افراد ڈاکٹر شاہ نواز کی ادھ جلی لاش کو دفن کرنے کی جگہ پہنچے، جہاں لوگوں نے نماز جنازہ ادا کی اور دعا مانگی۔ اس موقع پر، مانجھی فقیر نے صوفی کلام بھی گایا، جبکہ لوگوں نے قبر پر پھول نچھاور کیے اور اجرک بھی ڈالی۔