عمرکوٹ: توہین مذہب کے ملزم کی قبر پر تین دن بعد غائبانہ نماز جنازہ

عمرکوٹ میں توہین مذہب کے ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کی موت پر تعزیت کرنے کے لیے اتوار کو قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ کئی افراد ان کے گاؤں پہنچے۔

22 ستمبر، 2024 کی اس تصویر میں لوگ ڈاکٹر شاہ نواز کی تعزیت کے لیے ان کے گاؤں میں موجود ہیں(پنہل ساریو)

سندھ کی قوم پرست جماعت جیے سندھ قومی محاذ (جسقم) کے رہنما ڈاکٹر نیاز کالانی نے بتایا کہ عمرکوٹ میں توہین مذہب کے مقدمے میں نامزد ملزم ڈاکٹر شاہ نواز کی مبینہ پولیس مقابلے میں موت کے تیسرے روز (اتوار کو) صوبے کے مختلف شہروں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کی قبر کے قریب غائبانہ نماز جنازہ ادا کی ہے۔

ڈاکٹر نیاز کالانی نے کہا: ’اتوار کو سندھ کے مختلف شہروں سے سینکڑوں افراد قوم پرست رہنماؤں، سماجی کارکن اور صوفی فن کار بشمول مانجھی فقیر، پہنل ساریو، سماجی رہنما سندھو نواز گھانگھرو کے ساتھ عمرکوٹ کے نزدیک ڈاکٹر شاہ نواز کے گاؤں جاہنرو پہنچے۔ ان افراد میں خواتین بھی شامل تھیں۔

’گاؤں پہنچنے والے افراد نے ڈاکٹر شاہ نواز کے والد، بھائیوں اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ فاتحہ خوانی کی اور ان سے اس واقعے کی تفصیلات معلوم کیں۔

’اس کے بعد تمام افراد پیدل چل کر گاؤں سے کچھ فاصلے پر واقع ڈاکٹر شاہ نواز کے خاندان کی زرعی زمین پہنچے، جہاں ڈاکٹر شاہ نواز کی آدھ جلی لاش کو دفنایا گیا تھا۔

’لوگوں نے قبر پر کھڑے ہو کر ڈاکٹر شاہ نواز کی نماز جنازہ ادا کی اور دعا مانگی۔ لوگوں نے قبر پر اجرک بھی ڈالی اور پھول نچھاور کیے۔ اس موقعے پر مانجھی فقیر نے صوفی کلام بھی گایا۔

’ان افراد نے ڈاکٹر شاہ نواز کے والد کے ساتھ میت دفنانے والے ان کے ڈرائیور کو بھی خراج تحسین پیش کیا۔‘

بقول ڈاکٹر نیاز کالانی: ’ایک فرد پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے۔ پولیس مقدمہ دائر کرتی ہے۔ گھر والوں کی مدد سے ملزم کو باقاعدہ گرفتار کیا جاتا ہے۔ ملزم پر لگنے والے الزامات کو عدالت میں ثابت کرنے کی بجائے پولیس حراست میں موت ہوجاتی ہے۔

’لاش کو دفنانے نہیں دیا جاتا۔ یہ بہت بڑا ظلم ہوا۔ اگر ایسا ہی کرنا ہے تو ملکی قانون کیوں بنایا گیا؟ پھر عدالتوں کو بند کر دیا جائے اور ہر شخص کو اپنے طریقے سے انصاف کرنے کے لیے آزاد کر دیا جائے۔

’ماضی میں ایسے مقدمات ہوئے جہاں کسی شخص پر الزام لگایا گیا لیکن بعد میں وہ جھوٹا ثابت ہوا۔ اس لیے ضروری تھا کہ لوگ ڈاکٹر شاہ نواز کے خاندان کے ساتھ ہمدردی کریں۔‘

قوم پرست رہنما پہنل ساریوں نے کہا: ’جس دن ڈاکٹر شاہ نواز پر توہین مذہب کا الزام لگا، اس دن سے ان کے گاؤں میں خوف و ہراس تھا۔

’گاؤں کے لوگ سہمے ہوئے تھے۔ خوف کے باعث ڈاکٹر شاہ نواز کے قریبی رشتہ دار خاندان والوں کے ساتھ فاتحہ کرنے نہیں آئے اور کچھ لوگ آئے تو گھر والوں نے خوف کے باعث ان سے تعزیت نہیں لی۔

’ایسے میں سندھ کی روداری اور صوفی روایت کے تحت یہ لازمی تھا کہ ہمدردی کی جائے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر شاہ نواز کی جانب سے مبینہ توہین مذہب کی خبر منگل کو سوشل میڈیا پر پھیلی جس کے بعد عمر کوٹ کے کئی علاقوں میں احتجاج کیا گیا جبکہ بدھ کو اس واقعے کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال بھی کی گئی۔

پولیس نے منگل کو ہی مقامی مسجد کے پیش امام کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا۔

18 اور 19 سمتبر کے درمیانی شب کو میرپورخاص کے سابق اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کیپٹن (ر) اسد علی چوہدری کے مطابق ڈاکٹر شاہ نواز کی پولیس مقابلے میں موت ہو گئی۔

پولیس کے مطابق جب لاش کو ان کے گاؤں جاہنرو لے جایا گیا تو وہاں موجود مشتعل افراد نے لاش لانے والی ایمبولنس کو گاؤں میں داخل ہونے نہیں دیا۔

مقتول ڈاکٹر شاہ نواز کے بھائی بابر علی نے بتایا کہ ’گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینے کے بعد وہ اور ان کے والد ایمبولیس کے ساتھ تھر نبی سر، چیل بند سمیت مختلف شہروں میں دفنانے لے گئے مگر کسی جگہ بھی میت دفنانے نہیں دی گئی۔‘

بابر علی کے مطابق: ’اس کے بعد ایمبولینس ڈرائیور نے کہا وہ زیادہ دیر رک نہیں سکتے اور لاش کو اتار دیا، جس کے بعد بابر اپنے ڈرائیور پریمو کولہی اور ان کے والد نے گاؤں کے قریب ان کی زرعی زمیں میں اسے دفنا دیا۔‘

بقول بابر علی: ’وہاں بھی مشتعل افراد پہنچ گئے اور لاش کو آگ لگا دی۔ کچھ دیر بعد پولیس آ گئی۔ لاش 50 فیصد جل چکی تھی۔ ادھ جلی لاش کو اپنی زرعی زمین میں دفنایا گیا۔‘

اس واقعے کے بعد سول سوسائٹی اور حقوق انسانی کی تنظیمیں بھی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان