پہلی نظر میں، انگلینڈ کے علاقے یارک شائر میں ایک مصروف سڑک پر ایک پیٹرول سٹیشن، دو گرجا گھروں اور دکانوں والا چھوٹا سا گاؤں شپٹن تھورپ کسی بھی دوسرے علاقے کی طرح پر سکون دکھائی دیتا ہے۔
لیکن مزید گہرائی میں جا کر، مقامی لوگوں سے بات کرنے پر ایک عجیب و غریب صورت حال سامنے آتی ہے، جہاں اس چھوٹی سی آبادی کو بد زبانی پر مبنی نامعلوم اور گمنام خطوط کے ذریعے دہشت زدہ کیا جا رہا ہے۔
ان دھمکی آمیز خطوط کے سکینڈل نے بعض لوگوں کو اس کیس کا موازنہ مشہور ٹی وی سیریز ’بریجرٹن‘ (Bridgerton) سے کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
گاؤں کے کونسلر لیو ہیمنڈ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’جو بھی یہ کام کر رہا ہے وہ کافی پیشہ ور ہے۔‘
کونسلر ہیمنڈ نے کہا کہ جیسا کہ پرانے دور کے ٹی وی ڈرامے میں لیڈی وِسل ڈاؤن (مصنفہ) کی پیدا کردہ مشکلات کی طرح تقریباً 500 افراد کی آبادی والے اس گاؤں میں بے شمار لوگوں کو ہدف بنایا گیا ہے، جن میں بزرگ رہائشی، پیرش کونسلر اور رضاکار شامل ہیں۔
ایک رہائشی کو ایک خالی کرسمس کارڈ ملا، جس پر ایک نامناسب لفظ لکھا ہوا تھا۔
پیرش کونسل کے چیئرمین وکٹر لیمبرٹ کو دھمکی آمیز خط لکھنے والے نے بتایا کہ اسے امید ہے کہ وہ ’1079 اے میں ایک بس کی زد میں آ جائیں گے۔‘
کونسلر ہیمنڈ کو خود تقریباً آٹھ خطوط موصول ہوئے ہیں، جن میں سے پہلا خط نومبر 2022 میں ان کے لیٹر باکس کے ذریعے پہنچا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلا والا ایک دھچکہ تھا لیکن ایک سیاست دان ہونے کی حیثیت سے مجھے تھوڑی رعایت کی توقع ہے۔‘
رہائشیوں کے فیس بک گروپ میں شیئر کیے گئے ایک اور خط میں کہا گیا کہ ’انہیں امید ہے کہ وصول کنندہ موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہو جائے گا، آپ کا گھر بار بار سیلاب کی زد میں آ سکتا ہے۔‘
اس میں مزید کہا گیا کہ ’شپٹن تھورپ میں اکثر لوگ بارش اور سیلاب چاہتے ہیں تاکہ آپ بہہ جائیں اور دوبارہ کبھی نظر نہ آئیں۔‘
کونسلر ہیمنڈ کا کہنا تھا کہ یہ خطوط ہاتھ سے نہیں بلکہ رائل میل کے ذریعے پوسٹ کیے گئے ہیں اور یہ کئی اقسام کے ہیں، جن میں سے کچھ کو ہاتھ سے لکھا گیا اور ’مختلف مشینوں پر ٹائپ‘ کیا گیا ہے اور مختلف سائز کے کاغذوں پر اور مختلف فونٹس سے لکھا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان میں سے کچھ عجیب طور پر ایسے لوگوں نے دستخط کیے ہیں جن کا وجود ہی نہیں۔‘
ہمبرسائیڈ پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
رائل میل کے ایک ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’جہاں ضرورت پڑی، رائل میل ہمیشہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کی تحقیقات میں ہر طرح سے مدد کرے گا۔‘
کونسلر ہیمنڈ نے کہا: ’مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس اس سال کے شروع میں میرا آخری خط آیا تھا۔ اس مہینے کم از کم دو لوگوں کو یہ ملے اور مجھے لگتا ہے کہ اگست میں کسی اور کو ایسا ایک خط ملا تھا۔‘
سوالات فطری طور پر یہی پیدا ہوتے ہیں کہ خطوط کے پیچھے کون ہے۔
زیادہ تر دیہات کی طرح، پیریش کونسل علاقے کا محور ہے اور کونسلر ہیمنڈ کو شبہ ہے کہ کونسل، جہاں فیصلے کیے جاتے ہیں، کو غیض و غضب کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
حالیہ مسائل نے مبینہ طور پر کچھ رہائشیوں کو پریشان کیا ہے، جن میں یہ افواہیں بھی شامل ہیں کہ گاؤں کے پیرش ہال کو تجارتی مقاصد کے لیے کرائے پر دے دیا جائے گا۔
کونسلر ہیمنڈ نے کہا: ’واقعی افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ واقعی ایک اچھا گاؤں ہے۔ یہ سماجی طور پر بہت فعال اور ایک بہت متحد برادری ہے، لہٰذا یہ افسوس ناک ہے کہ ایک یا دو افراد کے خراب رویے کی وجہ سے اس کی بری خبریں جاری ہو رہی ہیں۔‘
ہیمنڈ نے مزید کہا: ’جو بھی ہو، پیرش کونسلرز اور رضاکار اپنے مقامی گاؤں یا مقامی برادری کے لیے اچھا کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
’میں یہ فرض کر رہا ہوں کہ جو بھی یہ کام کر رہا ہے وہ کمیونٹی سے بہت جڑا ہوا ہے کہ وہ یہ سب کر رہا ہے اور اس کی انا بہت بڑی ہے۔‘
© The Independent