تائیوان حکومت کی لبنان میں پھٹنے والے پیجرز کی تحقیق

تائیوان کے استغاثہ نے بتایا ہے کہ گذشتہ ہفتے لبنان میں دھماکوں سے پھٹنے والے پیجرز سے منسلک کمپنی سے تحقیقات میں چار افراد سے بطور گواہ پوچھ گچھ کی گئی ہے۔

18 ستمبر 2024 کو بیروت میں ایک نامعلوم مقام پر پھٹنے والے پیجر کی باقیات دکھائی دے رہی ہیں ) اے ایف پی)

تائیوان کے استغاثہ نے بتایا ہے کہ گذشتہ ہفتے لبنان میں دھماکوں سے پھٹنے والے پیجرز سے منسلک کمپنی سے تحقیقات میں چار افراد سے بطور گواہ پوچھ گچھ کی گئی ہے۔

گذشتہ ہفتے لبنان بھر میں سینکڑوں پیجرز اور واکی ٹاکیز کے پھٹنے سے بچوں سمیت کم از کم 39 افراد مارے گئے اور تین ہزار سے زیادہ زخمی ہو گئے جس کے بارے میں شبہ ہے کہ یہ اسرائیلی حملہ تھا۔

اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے اس حملے میں اپنے ملک کے ملوث ہونے کی تردید کی۔ اسرائیلی صدر نے سکائی نیوز کے پروگرام ’سنڈے مارننگ ودھ ٹریور فلپس‘ کو بتایا: ’سب سے پہلے میں اس (حملے) یا آپریشن کے ذرائع کے کسی بھی تعلق کو مسترد کرتا ہوں۔‘

اس بات کی تحقیقات جاری ہیں کہ ان الیکٹرانک آلات کو کس طرح یا کب ہتھیار بنایا گیا اور انہیں دور سے دھماکوں سے اڑایا گیا اور اس سلسلے میں تائیوان میں استغاثہ نے اپنے ملک کے ساتھ ساتھ بلغاریہ، ناروے اور رومانیہ میں کمپنیوں کے اس میں ممکنہ کردار کی بھی تحقیق کی۔

پھٹنے والے پیجرز کے مینوفیکچرنگ لیبل پر گولڈ اپولو تحریر تھا لیکن تائیوان کی کمپنی نے ابتدائی طور پر انہیں بنانے سے انکار کیا تھا۔ کمپنی کے صدر سو چنگ کوائنگ نے کہا تھا کہ یہ پروڈکٹ ہماری نہیں تھی، صرف اس پر ہمارا برینڈ درج تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہنگری کی ایک کمپنی بی اے سی کنسلٹنگ نے گولڈ اپولو کا لائسنس حاصل کیا تھا جس کے بعد انہوں نے تائیوانی کمپنی کے برانڈ کو ان ڈیوائسز میں استعمال کیا جن کا اب سراغ لگایا گیا ہے۔

لیکن یونیورسٹی کالج لندن (یو سی ایل) سے گریجویٹ بی اے سی کنسلٹنسی کی سی ای او کرسٹیانا بارسونی آرکیڈیاکونو نے کہا کہ وہ سپلائی چین کی محض ایک کڑی تھیں اور وہ پیجرز نہیں بناتے تھے۔

گولڈ اپولو کے صدر سو نے کہا کہ ان کی کمپنی کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ پیجرز کو دھماکے سے اڑانے کے لیے ان میں تبدیلی کی گئی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ تائیوان کی حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ پیجرز ان کے ملک میں نہیں بنائے گئے تھے تاہم تائی پے میں استغاثہ نے گولڈ اپولو کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کیا۔

شیلن ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹرز آفس کے ترجمان نے بتایا کہ کمپنی کے ایک موجودہ اور ایک سابق ملازم سے بطور گواہ پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ ترجمان نے مزید کہا: ’ہم اس کیس پر تیزی سے کارروائی اور جلد از جلد حل تلاش کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے پوچھ گچھ سے گزرنے والے افراد کے نام بتانے سے انکار کردیا۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق بھی نہیں کی کہ آیا مزید ملازمین سے پوچھ گچھ کی جائے گی یا نہیں۔

ترجمان کے مطابق: ’دونوں افراد نے کیس کو واضح کرنے میں مدد کی اور پورے معاملے کی گہرائی سے تفتیش جاری ہے۔‘

ترجمان نے مزید کہا کہ ’اپولو سسٹمز‘ نامی ایک اور کمپنی کے اکیلے ملازم  سو اور ٹریسا وو سے بھی گذشتہ ہفتے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

تفتیش کاروں نے مبینہ طور پر کمپنی سے منسلک چار مقامات پر بھی تلاشی لی۔

لبنان کے ایک سیکورٹی ذرائع نے دعویٰ کیا کہ حزب اللہ نے چند ماہ قبل گولڈ اپولو سے پانچ پیجرز کا آرڈر دیا تھا۔

حزب اللہ نے مبینہ طور پر فروری میں اپنے ارکان سے کہا تھا کہ وہ موبائل فون کا استعمال بند کر دیں یہ انتباہ دیتے ہوئے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس انہیں ٹریک کر سکتی ہے۔

نیو یارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا کہ اسرائیلی آپریٹیوز نے کسی مرحلے پر ان ڈیوائسز کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے بجائے مبینہ طور پر ان پیجرز کو مکمل طور پر تیار کیا اور انہیں ’دھوکے سے‘ لبنان بھیجا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا