ممکن ہے صدر رئیسی ’پیجر سے‘ مارے گئے ہوں: ایرانی رکن پارلیمنٹ

ایران کی پارلیمان کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ایک رکن احمد بخشیش اردستانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ممکن ہے کہ ہیلی کاپٹر حادثے میں جان سے جانے والے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک پیجر کی وجہ سے مارے گئے ہوں۔

ایرانی پارلیمان کے رکن احمد بخشیش اردستانی (ارنا) 

ایرانی پارلیمان کے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے ایک رکن احمد بخشیش اردستانی نے دعویٰ کیا ہے کہ ممکن ہے کہ رواں سال مئی میں ہیلی کاپٹر حادثے میں جان سے جانے والے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ایک پیجر پھٹنے کی وجہ سے مارے گئے ہوں۔

ایرانی نیوز ویب سائٹ ’دیدہ بان ایران‘ کو ایک انٹرویوں میں انہوں نے کہا کہ ’ہمیں بعض انٹیلی جنس اور فوجی دستوں سے اطلاعات ملیں کہ شہید رئیسی بھی ایک پیجر کے ہاتھوں مارے گئے، جو وہ استعمال کر رہے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہو سکتا ہے کہ پیجر کی قسم حزب اللہ کے ہاتھوں میں موجود پیجر سے مختلف ہو لیکن ہمارے مرحوم صدر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں ممکنہ منظر ناموں میں سے ایک یہی ہے کہ ان کا پیجر پھٹ گیا۔‘

ایران کے سابق صدر 19 مئی 2024 کو آذربائیجان کے نزدیک ایرانی سرحد پر ہیلی کاپٹر کریش ہونے کے بعد جان سے چلے گئے تھے۔

مرحوم ایرانی صدر کے قافلے میں شامل ایک ہیلی کاپٹر کو اس وقت ’حادثہ‘ پیش آیا تھا، جب ایرانی خبر رساں ادارے ارنا کے مطابق وہ آذربائیجان کے ساتھ ایرانی سرحد پر ایک ڈیم کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔

بعد ازاں ایرانی مسلح افواج کی جانب سے 63 سالہ سابق صدر ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر کے حادثے کے بارے میں حتمی تحقیقی رپورٹ میں تخریب کاری یا ایئر کرافٹ سے چھیڑ چھاڑ کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے  خراب موسمی حالات کو اس مہلک حادثے کی وجہ بیان کیا گیا تھا۔

اس حادثے میں ابراہیم رئیسی کے علاوہ ایران وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان اور چھ دوسرے افراد بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

احمد بخشیش اردستانی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ ابراہیم رئیسی پیجر استعمال کر رہے تھے اور اسی پیجر کے پھٹنے سے یہ حادثہ پیش آیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’عین ممکن ہے کہ جب ابراہم رئیسی آذربائیجان کی سرحد پر گئے تو اسرائیلیوں نے ان کے پیجر کی معلومات حاصل کر لی ہو۔‘

احمد بخشیش اردستانی کا کہنا تھا کہ ایران نواز حزب اللہ کے لیے پیجرز کی خریداری میں تہران ضرور ملوث رہا ہو گا کیونکہ ان پیجرز میں سے ایک لبنان میں ایرانی سفیر کے ہاتھ میں بھی تھا۔

گذشتہ ہفتے لبنان کے مختلف شہروں میں عام لوگوں کے زیر استعمال پیجرز خود بخود پھٹنا شروع ہوئے جس سے اب تک تقریباً تین درجن افراد جان سے جا چکے ہیں، جب کہ ساڑھے چار سو زخمی ہو چکے ہیں۔

بعدازاں معلوم ہوا کہ لبنان میں متحرک ایران نواز عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے بعض کمانڈرز اور جنگجوؤں کے پیجرز اور واکی ٹاکیز کی بیٹریاں بھی پھٹیں

حزب اللہ نے ان دھماکوں کا الزام اسرائیل پر لگایا اگرچہ تل ابیب کی طرف سے اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

حزب اللہ نے پیجرز اور والی ٹاکیز کے پھٹنے کے واقعات میں اموات کا بدلہ لینے کی غرض سے اسرائیل پر کئی ڈرون اور راکٹ حملے کیے جس کے بعد اتل ابیب نے بھی عرب ملک پر فضائی حملے کیے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔   

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا