لبنان کے وزیر صحت کا کہنا ہے کہ پیجر دھماکوں میں اب تک ایک بچی سمیت نو افراد جان سے جا چکے ہیں جب کہ 2,800 افراد زخمی ہیں۔ حزب اللہ نے ان دھماکوں کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔
سکیورٹی ذریعے نے روئٹرز کو بتایا کہ منگل کو رابطے کے لیے استعمال ہونے والے پیجرز پھٹنے سے لبنان کے مسلح گروپ حزب اللہ کے سینکڑوں ارکان، جن میں جنگجو اور طبی عملہ شامل ہے، شدید زخمی ہو گئے۔
اے ایف پی کے مطابق لبنان کے وزیر صحت فراس الابيض نے کہا کہ ’2800 افراد زخمی ہیں جن میں سے دو سو افراد کی حالت خطرے میں ہے۔‘
ان واقعات میں حزب اللہ کے ایک رکن اسمبلی کے بیٹے بھی جان سے گئے ہیں جب کہ امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق شام میں بھی پیجر پھٹنے کے واقعات پیش آئے ہیں جن سے لوگوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
حزب اللہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیجر ڈیوائسز پھٹنے سے ہونے والے دھماکے اسرائیل کی تقریباً ایک سال سے جاری حملوں کے دوران ’سب سے بڑی سکیورٹی خلاف ورزی ہے۔‘ جس کا حزب اللہ کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ دھماکے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان بڑھتی ہوئے تشدد کے ماحول میں ہوئے۔ اسرائیل اور حزب اللہ گذشتہ سال اکتوبر میں غزہ کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے اغاز کے بعد سے سرحد پار سے لڑائی میں مصروف ہیں۔ اسرائیلی جارحیت گذشتہ کئی سال میں بدترین کارروائیوں میں سے ایک ہے۔
ایران کی خبر رساں ایجنسی مہر نے رپورٹ کیا کہ ایران کے لبنان میں سفیر مجتبیٰ امانی بھی منگل کو پیجر پھٹنے سے زخمی ہو گئے۔
روئٹرز کو تین سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ لبنان میں پھٹنے والے پیجر جدید ماڈل کے تھے جو حزب اللہ نے حالیہ مہینوں میں لیے تھے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان ستیفن دوجارک کا کہنا ہے کہ ’انتہائی نازک‘ تناطر میں لبنان کی صورت حال بے حد تشویشناک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ شہری اموات کی مذمت کرتی ہے۔
پیجر ڈیوائس کیا ہے؟
پیجر ایک چھوٹا اور سادہ الیکٹرانک آلہ ہے جو پیغام رسانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک مخصوص فریکوئنسی پر کام کرتا ہے اور ایک طرفہ رابطے کی سہولت فراہم کرتا ہے، یعنی پیجر کے ذریعے آپ کو پیغام موصول ہو سکتا ہے، لیکن آپ جواب نہیں دے سکتے۔
اس کا استعمال زیادہ تر ہنگامی حالات، طبی عملے، یا سیکیورٹی اداروں میں فوری اور ضروری پیغامات پہنچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ پیجر کی سب سے بڑی خوبی اس کی سادگی اور فوری اطلاعات دینے کی صلاحیت ہے، جو اسے ان ماحول میں مفید بناتی ہے جہاں تیز رفتار اور قابل اعتماد پیغام رسانی ضروری ہو۔
اس کا استعمال خاص طور پر ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں موبائل سگنل کمزور ہو یا موبائل فونز غیر عملی ہوں۔
غزہ کے بعد اسرائیل کا جارحیت لبنان کے ساتھ شمالی سرحد تک بڑھانے کا اعلان
اس سے قبل اسرائیل نے منگل کو جنگی مقاصد کے دائرہ کار کو وسعت دینے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت غزہ میں حماس کے خلاف تقریباً سال بھر سے جاری جارحیت کو لبنان کی شمالی سرحد پر بھی مرکوز کیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ اعلان امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے اس ہفتے خطے کے دورے کے دوران سامنے آیا۔
بلنکن کے دورے کا مقصد غزہ میں فائر بندی کے لیے تعطل کا شکار مذاکرات کی بحالی ہے۔
اب تک اسرائیل کا مقصد حماس کا خاتمہ اور سات اکتوبر کو قیدی بنائے گئے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی تھا۔
اگرچہ جارحیت کا محور غزہ ہی رہا ہے لیکن اسرائیلی فوج اور لبنان میں حماس کی اتحادی حزب اللہ کے درمیان فائرنگ کے مسلسل تبادلے نے دونوں طرف ہزاروں افراد کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’سیاسی وسکیورٹی کابینہ نے آج شام جنگ کے مقاصد کو اپ ڈیٹ کیا تاکہ ان میں شمال کے مکینوں کی گھروں کو بحفاظت واپسی شامل ہو سکے۔‘
اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ، جسے باضابطہ طور پر جنگ قرار نہیں دیا گیا، لبنان میں سینکڑوں افراد کی جان لے چکا ہے، جبکہ اسرائیل کے درجنوں شہری اور فوجی جان سے جا چکے ہیں۔
اسرائیل کا اعلان اس کے ایک دن بعد سامنے آیا جب وزیر دفاع یوآو گلانت نے کہا کہ ’فوجی کارروائی‘ ہی ’واحد راستہ‘ رہ گئی ہے تاکہ اسرائیل کے شمالی علاقوں کے مکینوں کی واپسی یقینی بنائی جا سکے۔
بنیادی تبدیلی
حزب اللہ نے پیر کو اسرائیلی ٹھکانوں پر 12 سے زیادہ حملوں اور منگل کو مزید تین حملوں کا دعویٰ کیا۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے لبنان میں ’دہشت گرد‘ اہداف پر حملہ کیا۔
امریکی ایلچی ایموس ہوچ سٹین سے ملاقات کے دوران گلانت کا کہنا تھا کہ ’حزب اللہ حماس سے اپنے تعلقات مضبوط کرتی جا رہا ہے اس لیے کسی معاہدے کا امکان کم ہوتا جا رہا ہے۔‘
بعد ازاں نیتن یاہو نے ہوچ سٹین کو بتایا کہ وہ اسرائیل کی شمالی سرحد کی سکیورٹی صورت حال میں ’بنیادی تبدیلی‘ کے خواہاں ہیں۔
حزب اللہ کے نائب سربراہ نعیم قاسم نے ہفتے کے آخر میں کہا کہ ان کا گروپ ’جنگ میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔‘ لیکن اگر مکمل جنگ چھڑ گئی تو ’دونوں جانب بڑا نقصان ہو گا۔‘
دریں اثنا حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ مزید لڑائی کی تیاری کر رہی ہے جس کے لیے خطے بھر سے معاونت فراہم ملے گی۔
یمنی حوثیوں، جن کے سمندری حملوں نے عالمی جہاز رانی کو متاثر کیا، کو لکھے گئے خط میں حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار نے کہا: ’ہم نے خود کو ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ کے لیے تیار کر لیا ہے۔‘
سنوار کا کہنا تھا کہ ’ہماری مشترکہ کوششیں آپ کے اور لبنان اور عراق کے گروپوں کے ساتھ ہیں۔ ہم اس دشمن کو تباہ کر دیں گے اور اسے شکست دیں گے۔‘
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب ایک ہفتے سے بھی کم عرصہ قبل وزیر دفاع گلانت نے کہا کہ حماس، غزہ میں فوجی تنظیم کے طور پر ’اب موجود نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلنکن کا دورہ مصر
اگرچہ کئی مہینوں کی ثالثی اور سفارتی کوششیں غزہ میں فائر بندی کروانے میں ناکام رہی ہیں، واشنگٹن نے کہا کہ وہ اب بھی فریقین پر زور دے رہا ہے کہ وہ معاہدے کو حتمی شکل دیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ ایک نئی تجویز پر ’تیزی سے‘ کام کر رہا ہے تاکہ باقی ماندہ اختلافات کو دور کیا جا سکے۔
ملر کا کہنا تھا کہ بلنکن اس ہفتے اپنے دورہ مصر کے دوران فائر بندی کی کوششوں پر بات کریں گے۔
ملر کے مطابق، بلنکن ’غزہ میں فائر بندی کے لیے جاری کوششوں پر تبادلہ خیال کریں گے، جس کے تحت تمام قیدیوں کی رہائی یقینی بنائی جائے گی، فلسطینی عوام کی تکالیف میں کمی ہو گی اور وسیع تر علاقائی سلامتی کے قیام میں مدد ملے گی۔‘
نتن یاہو نے عوامی سطح پر اس امریکی اندازے کو مسترد کر دیا ہے کہ معاہدہ قریب ہے۔ انہوں نے مصر اور غزہ سرحد پر اسرائیلی فوجی موجودگی پر اصرار کیا۔
بڑھتا ہوا دباؤ اب تک نتن یاہو کو قیدیوں کی رہائی کے اس معاہدے پر متفق ہونے پر قائل نہیں کر سکا جسے اسرائیلی عوام کی وسیع حمایت حاصل ہے۔
غزہ کے صحت کے وزیر کے مطابق سات اکتوبر کے بعد اسرائیل کی فوجی کارروائی میں غزہ میں کم از کم 41 ہزار 226 افراد کی جان جا چکی ہے۔
اجتماعی سزا
منگل کو اقوام متحدہ کے رکن ممالک ایک مسودہ قرارداد پر بحث کریں گے جس میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کا خاتمہ 12 ماہ کے اندر کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
جنرل اسمبلی کی قراردادیں لازمی عمل درآمد کے لیے نہیں ہوتیں، لیکن اسرائیل نے اس نئے متن کو ’شرمناک‘ قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’کوئی بھی چیز‘ فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دینے کو جائز نہیں قرار دیتی۔
انہوں نے کہا: ’ہم سب حماس کے حملوں اور قیدی بنانے مذمت کرتے ہیں، جو بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
’لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دینے کو کوئی بھی عمل جائز قرار نہیں دیتا اور یہی بات ہم غزہ میں بڑے پیمانے پر دیکھ رہے ہیں۔‘
پیر کو وسطی غزہ میں، اسرائیل کے النصیرات پناہ گزین کیمپ پر بمباری کے بعد زندہ بچ جانے والوں نے ملبے میں زخمیوں اور دوسری اشیا کی تلاش شروع کر دی ہے۔
ایک طبی کارکن نے کہا کہ النصیرات میں آل قصاص خاندان کے گھر پر حملے میں 10 افراد کی جان گئی اور 15 زخمی ہوئے۔
زندہ بچ جانے والے راشد القصاص نے کہا کہ ’میرے کو گھر اس وقت نشانہ بنایا گیا جب ہم سو رہے تھے۔ پیشگی خبردار تک نہیں کیا گیا۔‘