پیجر اور واکی ٹاکیز حملوں کے بعد حزب اللہ کا کیا ردعمل ہو گا؟

اسرائیل حزب اللہ پر کتنا بڑا حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن نتن یاہو انتظامیہ کا جنگ میں سیاسی مفاد ہے۔

20 ستمبر، 2024 کی اس تصویر میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں شہری اسرائیلی حملے کا نشانہ بننے والی عمارت کے قریب موجود دیکھے جا سکتے ہیں(اے ایف پی)

بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ شیعہ عالم دین اور 1992 سے حزب اللہ کے رہنما شیخ حسن نصراللہ کے ذہن میں پیجرز اور واکی ٹاکی کے ذریعے ’ڈبل ٹیپ‘ اسرائیلی حملے کے بعد واضح طور پر کچھ احساس شرمندگی اور خوف کے سوا کیا چل رہا ہے۔

اسرائیلی آپریشن جتنا عجیب و غریب اور جرات مندانہ رہا ہے، وہ بھی ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے ارکان پر اسرائیل کے دوبارہ حملے کی ممکنہ تیاری ہو سکتی ہے یا شاید اس سے بھی آگے کی۔

ان ہزاروں الیکٹرانک آلات پھٹنے سے حزب اللہ کے ارکان (اور راہ گیروں) کی جتنی اموات ہوئیں اور چوٹیں آئی ہیں کہ اس کا رد عمل آنا یقینی ہے۔ لیکن شیخ کی طرف سے ’سزا‘ کتنی سخت ہونی چاہیے؟

کافی حد تک یہ ایرانی قیادت پر منحصر ہے جو کئی دہائیوں سے حزب اللہ کے حامی، سرپرست اور وسائل فراہم کرتے رہے ہیں۔

اگر ماضی کے تجربے کو دیکھا جائے تو اس کا ردعمل مہلک اور متاثر کن نظر آئے گا، لیکن کافی حد تک علامتی، نسبتاً غیر مؤثر اور اس طرح دیا جائے گا کہ اسرائیل کی جانب سے مزید کشیدگی پیدا نہ ہو۔

شام میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر اسرائیلی حملے میں پاسداران انقلاب کے رہنما کی جان جانے کے بعد سب سے زیادہ ڈرامائی انداز میں یہی ہوا اور ایران سے اسرائیلی علاقے کی طرف براہ راست ایک بہت بڑا میزائل حملہ کیا گیا جن میں زیادہ تر اسرائیل کے ’آئرن ڈوم‘ دفاعی ڈھال سے ٹکرا گئے تھے۔

ایرانی شاید کسی زیادہ بڑے اور مؤثر حملے کی توقع کر رہے تھے، لیکن وہ اس وقت اسرائیل کے ساتھ مکمل جنگ چھیڑنا نہیں چاہتے تھے اور اب بھی نہیں چاہتے۔

بدلہ لینے کی کوشش کرنے سے پہلے کافی تاخیر، جس دوران غصہ کسی حد تک ٹھنڈا ہو گیا تھا، اس بات کی بھی نشاندہی تھی کہ حملے کو کس طرح ترتیب دیا جائے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یمن میں حوثی، جو ایران کے اتحادی بھی ہیں، اسرائیل کی طرف سے کچھ سزا کے طور پر کی گئی بمباری سہنے بعد نسبتا خاموش رہے ہیں۔

بہرحال اسرائیل کی جانب سے کوئی قابل ذکر ردعمل سامنے نہیں آیا اور غزہ میں جنگ افسوس ناک طور پر جاری ہے۔

اسرائیل حزب اللہ پر کتنا بڑا حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے، لیکن نیتن یاہو انتظامیہ کا جنگ میں سیاسی مفاد ہے، یا کم از کم اپنے دشمنوں پر فتح کی کچھ حد تک جھلک دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

غزہ میں تقریباً ایک سال کی ہولناک لڑائی کے بعد، جس میں 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی جان سے گئے اور یہ علاقہ بنجر زمین میں تبدیل ہو گیا ہے، حماس کو بھی یقینی طور پر نقصان اٹھانا پڑا ہے، جس میں کچھ سینیئر شخصیات بھی شامل ہیں۔

لیکن یہ تباہ نہیں ہوئی ہے. باقی قیدی ابھی بھی قید میں ہیں، جو اسرائیلی عوام کے غصے کا سبب ہیں۔

نیتن یاہو کے بیان کردہ جنگی مقاصد حاصل نہیں ہو سکے ہیں اور اسرائیل واضح طور پر کم محفوظ ہے اور یہ خطہ ایک سال پہلے کے مقابلے میں کم مستحکم ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم خطے میں اپنے دوستوں اور حتیٰ کہ وائٹ ہاؤس سے کے ساتھ بھی اختلافات پیدا کرنے میں کامیاب رہے۔

تزویراتی طور پر، آپ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ حماس نے اسرائیل کے مقابلے میں اس تنازع سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بالخصوص جب آپ کو یاد ہو کہ حماس کو فلسطینی عوام کی فلاح و بہبود کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

شاید نیتن یاہو کو لگتا ہے کہ اگر وہ ایک اور محاذ کھولتے ہیں تو انہیں مزید کامیابی ملے گی، جس سے غزہ کے لیے امن معاہدہ مزید مشکل ہو جائے گا۔

عسکری طور پر اسرائیل کے شمالی محاذ پر حالات کشیدہ ہو رہے ہیں۔

اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنی افواج، وسائل اور توانائی کا رخ شمال کی جانب موڑ رہے ہیں‘ اور ایلیٹ اسرائیلی فوجی لبنان کی طرف جا رہے ہیں۔

لہٰذا حزب اللہ اور ایران چاہییں یا نہ چاہیں، نیتن یاہو اس جنگ کو ان تک لے جانے، اسرائیل کی تکنیکی برتری سے فائدہ اٹھانے(جیسا کہ پیجر کے دھماکوں میں دیکھا گیا) اور ان اسرائیلیوں کے دفاع کا مظاہرہ کرنے کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں جن پر حملے کیے گئے ہیں اور انہیں خطے میں ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔

بے شک، اسرائیلی فضائیہ پہلے ہی جنوبی لبنان میں مقامات پر بمباری کر چکی ہے۔

یہ مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے کسی بھی قابل تصور فوجی ’حل‘ سے کہیں زیادہ سیاست کے بارے میں ہے۔

غزہ پر حملے کی طرح یہ بھی اسرائیل کو مزید تنہا کر دے گا۔ نیتن یاہو اپنے تمام تر جارحانہ انداز کے باوجود ریاست اسرائیل کی سلامتی اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود داؤ پر لگا رہے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر