جاپان: سزائے موت کا قیدی 46 سال بعد بے قصور ثابت ہونے پر رہا

1969 میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد ایواؤ ہاکاماڈا دنیا میں سب سے طویل عرصے تک سزائے موت کا انتظار کرنے والے قیدی بن گئے۔

26 ستمبر 2024 کی اس تصویر میں ایواؤ ہاکاماڈا کو جیل سے نکلنے میں مدد دی جا رہی ہے (اے ایف پی) 

جاپان کی ایک عدالت نے چار افراد کے قتل کے جرم میں سزائے موت کا انتظار کرنے والے 88 سالہ شخص کو 46 سال جیل میں گزارنے کے بعد بری کر دیا۔

اس وقت کے ایک پیشہ ور باکسر ایواؤ ہاکاماڈا پر 1966 میں دو بچوں سمیت چار افراد کو قتل کرنے اور ان کے گھر کو جلانے کا الزام تھا۔

1969 میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد وہ دنیا میں سب سے طویل عرصے تک سزائے موت کا انتظار کرنے والے قیدی بن گئے۔

ان کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد متعدد اپیلوں اور طویل مقدمات کی وجہ سے بار بار تاخیر کا شکار ہوا، جس کے نتیجے میں جمعرات کو انہیں بری کر دیا گیا۔

شیزوکا ڈسٹرکٹ کورٹ کی طرف سے ایواؤ ہاکاماڈا کی بریت سے وہ جاپان جنگ کے بعد موت کی سزا سے بچنے والے پانچویں شخص بن گئے، جن کو دوبارہ مقدمہ چلانے پر بے قصور پایا گیا۔

مقامی نشریاتی ادارے ’این ایچ کے‘ کی رپورٹ کے مطابق سماعت کرنے والے جج کوشی کنی نے کہا کہ عدالت تسلیم کرتی ہے کہ اس مقدمے میں متعدد شواہد من گھڑت تھے اور ہاکاماڈا مجرم نہیں تھے۔

رپورٹس کے مطابق ایواؤ ہاکاماڈا نے 1960 کی دہائی میں ابتدائی کارروائی کے دوران قتل کا اعتراف کیا تھا لیکن پھر وہ اپنے اعتراف سے مکر گئے، جو ان کے بقول تفتیش کے دوران پولیس کے وحشیانہ تشدد کا نتیجہ تھا۔

ان کا اعترافِ جرم سے مکر جانا کئی مقدمات کا اہم ترین نکتہ تھا، جس کی وجہ سے ان کی موت کی سزا کو بالآخر 1980 میں جاپان کی سپریم کورٹ نے برقرار رکھا۔

دوبارہ مقدمے کی اپیل 2008 میں ان کی بہن ہیدیکو ہاکاماڈا نے دائر کی تھی، جو اب 91 سال کی ہیں اور عدالت نے بالآخر 2023 میں ان کے حق میں فیصلہ سنایا، جس سے اکتوبر میں شروع ہونے والے نئے مقدمے کی سماعت کی راہ ہموار ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی بہن ہیدیکو ہاکاماڈا نے فیصلے سے قبل صحافیوں کو بتایا: ’اتنے طویل عرصے سے ہم نے ایک ایسی جنگ لڑی ہے جو لامتناہی محسوس ہوتی تھی، لیکن اس بار مجھے یقین ہے کہ یہ حل ہو جائے گا۔‘

مقدمے کی سماعت کے دوران ہاکاماڈا کی نمائندگی ان کی بہن نے کی تھی کیونکہ ان کے چھوٹے بھائی کی جسمانی اور ذہنی صحت خراب تھی۔

اس بارے میں فوری طور پر کوئی اعلان نہیں کیا گیا کہ آیا استغاثہ فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے یا نہیں۔

کیوڈو نیوز نے رپورٹ کیا ہے کہ ان کے وکلا نے استغاثہ پر زور دیا کہ وہ اس فیصلے کو چیلنج نہ کریں۔

ایواؤ ہاکاماڈا کو 2014 میں بھی جیل سے رہا کیا گیا تھا جب ایک عدالت نے نئے شواہد کی بنیاد پر دوبارہ مقدمے کی سماعت کا حکم دیا تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ ان کی سزا من گھڑت الزامات پر مبنی ہو سکتی ہے۔

اس فیصلے کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں کہا: ’تقریباً نصف صدی کی غلط قید اور مزید 10 سال دوبارہ مقدمے کے انتظار میں رہنے کے بعد یہ فیصلہ اس گہری ناانصافی کا ایک اہم اعتراف ہے، جسے ہاکاماڈا کو اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں برداشت کرنا پڑا۔ ہم جاپان پر زور دیتے ہیں کہ وہ سزائے موت کو ختم کر دے تاکہ ایسا واقعہ دوبارہ ہونے سے روکا جا سکے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا