پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آئینی عدالتوں کے قیام کے لیے مجوزہ آئینی ترامیم کے مسودے میں کسی بھی جج کی ایکسٹینشن کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
آئینی ترامیم کے ابتدائی مسودے میں ایسے کون سے نکات تھے جن پر پیپلز پارٹی کا اتفاق نہیں تھا؟ اس سوال کے جواب میں مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ’جب بھی کوئی قانون سازی کی جاتی ہے تو ایک مسودہ تیار کیا جاتا ہے۔ جو حتمی نہیں ہوتا۔
’یہ مسودہ صرف ایک خیال ہوتا ہے، جس پر بحث کی جاتی ہے، پھر پارلیمان بھیجا جاتا ہے۔ ان تمام مراحل مکمل ہونے تک اس پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب نے کہا :’بلاول بھٹو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا عدل و انصاف کا نظام فرسودہ ہے۔ اس میں بہتری لانے کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔
’یہ خواب ان کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے دیکھا تھا۔جب انہوں نے 2006 میں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کیے۔
’پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2008 میں کوشش کی کہ اس معاملے پر قانون سازی کی جائے مگر اس وقت کے اتحادیوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’2024 کے انتخابی منشور میں بلاول بھٹو نے ان ترامیم کا ذکر کیا۔ بلاول اس ویژن کو لے کر چل رہے تھے۔ ان آئینی ترامیم کے لیے بلاول بھٹو نے شہباز شریف کی حکومت کو قائل کیا۔
’مولانا فضل الرحمٰن سے بھی اس موضوع پر بات کی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے آئینی عدالتوں کے قیام کے حوالی سے کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ انہوں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ ملک کے موجودہ عدالتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے پارلیمان کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔
’اب دونوں جماعتیں مل کر کام کر رہی ہیں اور ایک ایسے مسودے پر اتفاق کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ جس سے عوام کو انصاف میں مشکلات پر قابو پایا جا سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جب ان سے پوچھا گیا کہ ’آئینی عدالتوں کے قیام کے لیے مجوزہ آئینی ترامیم میں چیف جسٹس کے انتخاب کے طریقہ کار میں کیا تبدیلی تجویز کی گئی ہے؟
جس پر مرتضی وہاب نے کہا کہ ’ماضی میں چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کا اختیار صدر مملکت کے پاس تھا۔ اس وقت صدر پاکستان، وزیراعظم کی مشاورت سے تقرری کرتے تھے۔
مرتضیٰ وہاب کے مطابق: ’اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک جوڈیشل کمیشن قائم ہوا۔ جس کے تحت چیف جسٹس کے لیے نام تجویز کرتے ہیں اور جوڈیشل کمیشن کے ججز چیف جسٹس کی تقرری کا فیصلہ کرتے ہیں۔
’مگر اس طریقہ کار میں بار ایسوسی ایشن اور حکومت کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
بقول مرتضیٰ وہاب: ’مسودے میں ایک ایسے کمیشن کے قیام پر کام کیا جا رہا ہے جو جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیشن کا مجموعہ ہو۔ جس میں ججز، بار ایسوسی ایشنز اور پارلیمان کی حکمرانی ہو۔‘
مرتضی وہاب کے مطابق پارلیمان کی مراد حکومت کے ساتھ اپوزیشن کی بھی نمائندگی ہو۔ تاکہ ایسا فورم بن سکے جو متوازن اور خودمختار ہو۔ جو ملک کے مسائل کو سمجھتے ہوئے بہتریں لوگوں کا انتخاب کر سکے۔
’تاکہ وہ پاکستان کی اعلی عدلیہ میں آ کر لوگوں کو سستا اور فوری انصاف دے سکیں۔‘