قندھار ہائی جیکنگ کے 25 سال، پاکستان اور انڈیا کہاں کھڑے ہیں؟

انڈین ایئر لائن کا یہ جہاز 24 دسمبر1999 کو نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے نئی دہلی جاتے ہوئے پانچ ہائی جیکروں نے اغوا کر لیا تھا۔

28 دسمبر، 1999 کی اس تصویر میں افغانستان کے شہر قندھار کے ہوائی اڈے پر ہائی جیک ہونے والے انڈین طیارے کے سامنے موجود طالبان اہلکاروں کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

نیٹ فلیکس کی منی سیریز ’IC 814‘ قندھار ہائی جیکنگ کی ڈرامائی تشکیل ہے۔

انڈین ایئر لائن کا یہ جہاز 24 دسمبر1999 کو نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو سے نئی دہلی جاتے ہوئے پانچ ہائی جیکروں نے اغوا کر لیا تھا۔

یہ جہاز پہلے امرتسر لینڈ کرتا ہے پھر لاہور، دبئی میں اور آخر میں قندھار میں جو اس وقت طالبان کے کنٹرول میں تھا۔

31 دسمبر کو نیا ہزاریہ شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے اس ہائی جیکنگ کا اختتام اس وقت ہوتا ہے جب انڈین حکومت ہائی جیکروں کے کچھ مطالبات پورے کرتے ہوئے تین افراد کو رہا کر دیتی ہے جن میں مولانا مسعود اظہر، مشتاق زرگر اور سعید عمر شیخ شامل تھے۔

اس ہائی جیکنگ کو انڈین اور دنیا کی سول ایوی ایشن تاریخ میں سب سے طویل ترین ہائی جیکنگ کہا جاتا ہے۔

نیٹ فلیکس پر چھ اقساط پر مشتمل اس سیریز کو پاکستان اور انڈیا دونوں جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس میں حقائق کو درست انداز میں پیش نہیں کیا گیا۔

دراصل یہ سیریز جہاز کے کپتان  دیو شرن کی اپنی یادداشتوں پر مشتمل  کتاب Flight into Fear’  سے اخذ کی گئی ہے جو 2000 میں شائع ہوئی تھی ۔

اس لیے یہ سیریز انڈیا اور  پاکستان دونوں کے بیانیے سے میل نہیں کھاتی۔ شاید نیٹ فلیکس کے پیش نظر اس کی حساسیت اور اپنے کاروباری مفادات بھی تھے۔

بہرحال یہ بات حیران کن ضرور ہے کہ فلم کے آخر میں اس ہائی جیکنگ کو القاعدہ کے کھاتے میں ڈال کر بتایا جاتا ہے کہ ہائی جیکر اور رہا کیے گئے تینوں قیدی قندھار میں اسامہ بن لادن کے کیمپ جاتے ہیں جہاں پر اس رات کو جشن کا سامان ہوتا ہے مگر اس جشن میں آئی ایس آئی کو شامل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔

حالانکہ اس سے پہلے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ ہائی جیکنگ آئی ایس آئی نے کرائی ہے۔

اس سیریز میں شامل بہت سے حقائق خود اس وقت اسلام آباد میں تعینات انڈین ہائی کمشنر گوپال سوامی پارتھا سارتھی کی جانب سے شائع  ہونے والی یادداشتوں سے متصادم ہیں۔

یہ یادداشتیں سنگی اشاعت گھر ہری پور نے جنوری 2024 میں ’سفارتی تفریق‘ نامی کتاب میں شائع کی ہیں جس میں پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ ڈاکٹر ہمایوں خان کی یادداشتیں بھی شامل ہیں۔

پارتھا سارتھی لکھتے ہیں کہ ’1984 میں جب انڈین ایئر لائن کا جہاز اغوا کر کے لاہور لایا گیا تھا تو میں کراچی میں تعینات تھا اس لیے مجھے طیاروں کے اغوا سے پاکستانی افسروں کے نمٹنے کا طریقہ معلوم تھا۔

’یہ ہائی جیکنگ دبئی میں ختم ہوئی تھی جس میں لاہور میں آئی ایس آئی نے ہائی جیکروں کو پستول فراہم کیا تھا۔ اس لیے مجھے اب بھی یقین تھا کہ پرواز کی منزل لاہور ہی ہو گی میرا پاکستان کے فارن آفس سے رابطہ تھا۔

’جب امرتسر میں ہمارے اہلکار ہائی جیکنگ کو تمام نہ کر پائے تو طیارے کو لاہور لے جایا گیا۔ جسونت سنگھ نے ستار سے بات کر کے مجھے لاہور بھجوانے کی درخواست کی تھی۔ مجھے توقع تھی کہ پاکستانی حکام پرواز کو زیادہ دیر لاہور میں نہیں رکنے دیں گے اور اس کی اگلی منزل دبئی ہو گی۔ مجھے لاہور لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر دیا گیا جب ہم راولپنڈی ایئر بیس  پر ہیلی کاپٹر میں سوار ہونے لگے تو بتایا گیا کہ جہاز اڑ گیا ہے اوراس کا رخ دبئی کی طرف ہے۔‘

پارتھا سارتھی نے لکھا کہ اگلے روز طالبان کے اسلام آباد میں تعینات ایک سفارت کار نے ہمارے سیاسی قونصلر روچی گھنشیام کو فون کر کے اطلاع دی کہ اغوا شدہ پرواز کا رخ قندھار کی جانب ہے اور بتایا جائے طالبان حکام اس سلسلے میں کیا کارروائی کریں۔

’ہم نے انہیں مشورہ دیا کہ طیارے کو اترنے کی اجازت دی جائے جس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اس سلسلے میں کیا کارروائی کی جائے۔‘

پارتھا سارتھی لکھتے ہیں کہ یہ بات دلچسپ ہے کہ طالبان کو طیارے کی حتمی منزل کے بارے میں ہم سے پہلے ہی معلوم تھا۔ طالبان کے سفیر نے شروع ہی میں مجھ پر واضح کر دیا تھا کہ اگر ہائی جیکرز کے ساتھ مذاکرات جلدی اختتام کو نہ پہنچے تو وہ طیارے کو کسی دوسری جگہ جانے کی اجازت دے دیں گے۔

’طالبان نے ہمیں بتایا کہ ایک اغوا کار طیارے  سے باہر نکل  آیا ہے اور اس نے اپنی شناخت ابراہیم بتائی ہے جو خود کو مولانا مسعود اظہر کا بھائی بتاتا ہے۔ ادھر میں طالبان کے ساتھ رابطے میں تھا، ادھر نئی دہلی کے حکام براہ راست اغوا کاروں سے مذاکرات کر رہے تھے جس سے مجھے اختلاف تھا کہ اس سے میری حیثیت ثانوی ہو گئی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پارتھا سارتھی نے اس پاکستانی صحافی کا نام تو نہیں لکھا لیکن اتنا اشارہ دیا ہے کہ اسے ملا عمر اور طالبان رہنماؤں تک براہ ِراست رسائی حاصل تھی۔

’اس صحافی نے مجھ سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد ہمارے پاس طالبان سمیت دو ذرائع ہو گئے تھے۔ یہ صحافی ہمیں ملا عمر کے مرکز قندھار سے براہ راست پیغامات پہنچا رہے تھے۔ جس کے بعد ہم پر واضح ہو گیا تھا کہ ایک جانب حرکت المجاہدین کے ساتھ قریبی روابط اور دوسری جانب آئی ایس آئی اور طالبان کے ساتھ روابط کے پیش نظر مذاکرات خاصے دشوار رہیں گے۔

’میں نے طالبان سے ضمانت مانگی تھی کہ اگر اغوا کار کسی مسافر کو نقصان پہنچائیں تو طالبان طیارے پر دھاوا بول دیں۔ جب طالبان نے کہا کہ وہ افغانستان سے طیارے کو جانے کی اجازت دے دیں گے تو میں نے واضح کیا تھا کہ وہ  بہتر جانتے ہیں کہ اغوا کاروں کے پاس جانے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پاکستان اپنے کسی بھی ہوائی اڈے پر اترنے کی اجازت دینے سے پریشان ہو گا جبکہ ایران اور خلیجی ریاستوں کے ہمارے ساتھ پہلے ہی بہت اچھے تعلقات ہیں۔ قندھار میں ہمارے کمرشل قونصلر گھنشیام نے مجھے بتایا تھا کہ قندھار میں طالبان حکام کو اردو بولنے والے پاکستانی کنٹرول کر رہے تھے۔‘

انہوں نے لکھا کہ دہلی حکومت پر سب سے بڑا دباؤ میڈیا کا تھا مسافروں کے رشتہ دار واویلا کر رہے تھے کہ مسافروں میں اگر کسی با اثر وزیر کے رشتہ دار ہوتے تو اب تک مسئلہ حل ہو چکا ہوتا۔

’طالبان حکام بھی مجھے بتا رہے تھے کہ مسافر کہتے ہیں کہ 1990 میں مفتی محمد سعید کی اغوا کردہ بیٹی رابعہ سعید کو چھڑانے کے لیے کس طرح کشمیری عسکریت پسندوں کو رہا کیا گیا تھا۔ میرا مؤقف تھا کہ رابعہ سعید کی رہائی کے لیے کی گئی غلطی سے ہمیں سبق ملا ہے کہ ہم کسی صورت دہشت گردوں کے مطالبات کے آگے نہیں جھکیں گے۔ جس کی وجہ سے 28 دسمبر کو مجھے مذاکراتی عمل سے الگ کر دیا گیا اور 31 دسمبر کو نئی دہلی نے بیسویں صدی کے آخری دن تین عسکریت پسندوں مشتاق زرگر، مولانا مسعود اظہر اور سعید عمر شیخ کو نہ صرف رہا کر دیا بلکہ انہیں اسی طیارے میں قندھار بھیجا جس میں ہمارے وزیر خارجہ جسونت سنگھ سفر کر رہے تھے۔ ’مجھے بتایا گیا کہ مسعود اظہر نے سارے راستے میں جسونت سنگھ پر گالیوں کی بوچھاڑ کیے رکھی۔ کیا یہ ضروری تھا کہ انڈین وزیر خارجہ اور منجھے ہوئے عسکریت پسندوں کو ایک ہی جہاز میں قندھار بھیجا جائے؟ مجھے ایک اسرائیلی دوست نے بتایا تھا کہ قندھار میں بری طرح جھک جانے کی بڑی وجہ ہمیں دی جانے والی معلومات تھیں کہ اگر ہم نے مطالبات نہ مانے تو اغوا کار طیارے کو دھماکے سے اڑا دیں گے۔‘

طیارے کے اغوا کے بعد دونوں ملکوں میں کیا ہوا؟

پارتھا سارتھی لکھتے ہیں کہ عمر سعید شیخ کو دہلی کے نزدیک امریکی سیاحوں کو اغوا کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔

’مولانا مسعود اظہر ہندوستان کو پارہ پارہ کرنے کا عزم صمیم رکھتا تھا۔ مشتاق زرگر کو وادی میں انتہائی بھیانک قتل کرنے والا جنونی سمجھا جاتا تھا۔ رہائی کے بعد مولانا مسعود اظہر نے انڈین پارلیمنٹ پر 13 دسمبر 2001 کو حملہ کیا۔ جبکہ عمر سعید شیخ آج پاکستانی جیل میں امریکی صحافی ڈینیل پرل قتل کیس میں سزائے موت  پر عمل کیے جانے کے منتظر ہیں۔‘

نامور پاکستانی صحافی امتیاز گل جو قندھار میں ہونے والی اس ہائی جیکنگ کے وقت نہ صرف اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے بلکہ بعد میں2011 میں شائع ہونے والی  انہوں نے اپنی کتاب ‘The Most Dangerous Place Pakistan’s Lawless Frontier‘ میں بھی اس  واقعے کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ 

اس میں ایک ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ جب قندھار ایئر پورٹ پر اغوا کاروں اور انڈین حکومت کے درمیان مسافروں اور قیدیوں کا تبادلہ ہو چکا تو انڈیا کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ویوک کاج،  جو انڈین وزارت ِخارجہ میں پاکستان ڈیسک کے سربراہ  بھی تھے، مجھے ایک طرف لے گئے اور کہا کہ اپنے پاکستانی دوستوں کو بتا دو کہ ’جو کچھ انہوں نے کہا ہے ہم  نے برداشت کر لیا ہے لیکن اس کے جواب میں ہم جو کچھ کریں گے وہ اسے برداشت نہیں کر سکیں گے ۔‘

امتیاز گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو اس حوالے سے بتایا کہ کہ انہوں نے نیٹ فلیکس پر ابھی تک یہ سیریز نہیں دیکھی تاہم وہ قندھار میں بہت سے واقعات کے عینی شاہد ہیں۔

’جو کچھ اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان ہوتا آیا ہے اسے بھی کسی نہ کسی طور پر قندھار ہائی جیکنگ کے اثرات سے ہی  جوڑا جا سکتا ہے۔‘  انہوں نے بتایا کہ ’جنوری 2000 میں یو ایس انڈیا سٹریٹجک ڈائیلاگ کی پہلی نشست ہوئی جس میں انہوں نے فیصلہ کیا وہ دہشت گردی کا مل کر مقابلہ کریں گے۔ اس کا بنیادی ہدف القاعدہ اور پاکستان تھے۔

’یہی ویوک کاجو جو قندھار میں مذاکراتی ٹیم کے سربراہ تھے وہ 15 جنوری 2002 سے جنوری 2005 تک کابل میں انڈیا کے سفیر بن گئے۔ یہی وہ دور تھا جب انہوں نے یہاں پاکستان کے خلاف نیٹ ورکنگ کی۔ اسی دوران  بیت اللہ محسود قسم کے لوگ  ابھر کر سامنے آئے۔ اس کے بعد اکتوبر 2009 میں انڈیا ٹوڈے نے ایک نشست کروائی تھی۔ جس میں سلامتی اور دہشت گردی کے ماہرین نے شرکت کی تھی۔ اس میں اجیت ڈوول جو قندھار میں مذاکراتی ٹیم  کے رکن تھے انہوں نے تجویزدی تھی کہ پاکستان کی اندرونی فالٹ لائنز جن میں مسلکی فساد اور بلوچ قوم پرستی شامل ہیں ان کو ہوا دی جائے۔

’اس میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ بنگلہ دیش میں ہم کامیابی کے ساتھ اس ماڈل کو سرانجام دے چکے ہیں اب ہمیں پاکستان میں اس ماڈل پر کام کرنا چاہیے۔‘ یہی اجیت ڈوول 2014 سے اب تک انڈیا کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر ہیں۔

امتیاز گل نے بتایا کہ جہاز کے کپتان اور کچھ دیگر لوگ 31 دسمبر کو واپس نہیں جا سکے تھے کہ ان کے لیے دوسرے روز خصوصی جہاز نے پہنچنا تھا۔ جس فلائٹ کپتان کی یادداشتوں پر نیٹ فلیکس نے یہ سیریز بنائی ہے اس نے اور ہم نے نیو ائیر نائٹ قندھار ایئر پورٹ پر اکٹھی منائی تھی۔

نوٹ: تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ