زندگی بھی کتنی عجیب ہے۔ کئی دہائیوں پہلے، انڈین اداکار علی فضل جب ایک نوجوان تھے جو ہر موسم گرما سعودی عرب میں اپنے خاندان کے ساتھ گزارتے تھے اور خواب دیکھتے تھے کہ ایک دن وہ کسی اس دور دراز جگہ پر ہالی وڈ کی کسی فلم میں کام کر پائیں گے۔
انہیں معلوم نہیں تھا کہ ایک دن وہ اسی ملک میں فلمائی جانے والی ہالی وڈ بلاک بسٹر میں مرکزی کردار ادا کریں گے جہاں ان کی پرورش ہوئی۔
’قندھار‘ پہلی بین الاقوامی فلم ہے جو سعودی عرب کے تاریخی علاقے العلا میں فلمائی گئی ہے جس میں آج کے دور کے معروف ایکشن ہیرو جیرارڈ بٹلر نے بھی اداکاری کی ہے۔
علی فضل نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ ایک خوشگوار حیرت تھی۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں سعودی عرب میں کسی فلم کی شوٹنگ کروں گا جہاں میں نے اپنے بچپن کا اتنا بڑا حصہ گزارا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سعودی سرزمین پر کسی بھی چیز کو فلمانا ایک ایسی چیز تھی جس کے بارے میں اتنے عرصے سے سنا نہیں تھا لیکن یہ خوبصورت احساس ہے کہ وقت کیسے بدلتا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہ میرے کیریئر کے سب سے خوشگوار تجربات میں سے ایک تھا۔ سعودی عرب کے لوگ بہت ہی گرم جوش ہیں۔ میں نے سوچا کہ میں اس ملک کو جانتا ہوں لیکن میں نے اپنی زندگی میں العلا جیسی کوئی جگہ نہیں دیکھی۔ یہ ایک شاندار جگہ ہے اور ان تین مہینوں کے لیے اسے گھر کہنا بہت خوشی کی بات ہے۔‘
علی فضل نے یہاں کئی طریقوں سے گھر جیسا محسوس کیا۔
وہ عرفان خان کے بعد بالی وڈ کے وہ اداکار ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ ہالی وڈ فلموں میں کام کیا ہے جن میں ’فیوریس سیون‘، ’وکٹوریہ اینڈ عبدل‘، ’ڈیتھ آن دی نائل‘ اور ایمازون پر نشر ہونے والی ایکشن سیریز ’مرزا پور‘ شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علی فضل کہتے ہیں کہ ’میں باقی کاسٹ سے 25 دن پہلے العلا پہنچا تاکہ اس بالکل مختلف سیٹنگ میں موٹرسائیکل چلانا سیکھ پاؤں۔ میں زیادہ تر فلم میں جیری بٹلر کا پیچھا کر رہا ہوں اور اگرچہ میں بائیک چلانا جانتا تھا لیکن صحرا میں بائیک چلانا بالکل نیا گیم ہے۔‘
علی فضل اور بٹلر سکرین پر ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں لیکن العلا کے بنین ٹری ریزورٹ میں ہر کھانے پر وہ اکھٹے نظر آئے۔
بڑے بین الاقوامی پراجیکٹس میں کام کرنے سے ان کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ جب بھی علی فضل جیرارڈ بٹلر، جوڈی ڈینچ، سٹیفن فریئرز اور کینتھ جیسے کسی بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کرتے ہیں تو وہ ان سے ذاتی طور پر سیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح ایک بہتر اداکار اور بہتر انسان بن سکتے ہیں۔
’میں کینتھ کے ساتھ گزارے ایک لمحے کے بارے میں سوچتا رہتا ہوں۔ آسکر نامزدگیوں کے اعلان سے ایک رات پہلے ہم سب ’ڈیتھ آن دی نائل‘ کے پریمیئر کے بعد برٹش میوزیم میں جمع تھے اور جشن منا رہے تھے لیکن وہ (کینتھ) کونے میں بیٹھے اپنا اگلا سٹیج ڈرامہ لکھ رہے تھے۔ یہ ان کی لگن ہے۔ وہ کام میں وقت لگاتے ہے۔ اگلی صبح وہ سات آسکرز کے لیے نامزد ہوئے۔‘
ان لمحات کے بارے میں سوچتے ہوئے علی اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے کئی پروجیکٹس کی پیشکشوں کو قبول کرنا بھی مشکل بنا دیا ہے جن میں ایسا میٹریل اور عزم نہ ہو۔ جس کے نتیجے میں وہ بہت زیادہ سمجھدار ہو گئے ہیں اور بالی وڈ کی لائم لائٹ سے بہت زیادہ محتاط بھی حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ خود کو اس سطح کی مشہور شخصیت بننے سے روک رہے ہیں جس طرح کے ان کے کچھ ساتھی پہنچ چکے ہیں۔
ان کے بقول: ’میں اس تکبرانہ خود نمائی سے بھاگتا ہوں جس نے بالی وڈ کو گھیر رکھا ہے۔ میں لوگوں کو جج نہیں کرتا لیکن وہاں ایسا ہی نظام ہے۔ انڈیا میں فلم بہت زیادہ ہوسکتی ہے اور باقی انڈیا اب یہ دکھا رہا ہے۔‘
’اگر آپ جنوب کی طرف جائیں تو ہمارے پاس دنیا کی کچھ بہترین فلمیں ملیالم سنیما اور تمل سنیما سے آرہی ہیں اور مثال کے طور پر آسکر اور کین دونوں اس کا نوٹس لے رہے ہیں۔‘
علی فضل اپنے کھیل کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن وہ ان فنکاروں اور اداکاروں کی اقسام کی شناخت اور ان کے بارے میں بیداری بڑھانا چاہتے ہیں جو کام کر رہے ہیں لیکن ابھی تک پہچان نہیں پا رہے ہیں۔
’میں بے چین ہونا چاہتا ہوں۔ میں کچھ محسوس کرنا چاہتا ہوں جو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ عظیم وژن آپ کو ایسی جگہوں پر دھکیلتا ہے جہاں آپ کبھی نہیں گئے تھے، اور پھر کچھ نیا سامنے آتا ہے۔ یہ وہی ہے جو میں پیار کرتا ہوں، یہ وہ جگہ ہے جہاں مجھے اپنی سب سے بڑی خوشی ملتی ہے۔‘