پاکستان میں معلومات تک رسائی کے قانون پر کتنا عمل ہو رہا ہے؟

ماہرین کے خیال میں معلومات تک رسائی کے قانون سے متعلق عوام میں آگاہی بڑھ رہی ہے جب کہ سرکاری محکموں نے بھی معلومات فراہم کرنا شروع کر دی ہے۔

پاکستان میں وفاق اور چاروں صوبوں میں رائج رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) یا معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت شہریوں کو سرکاری محکموں سے معلومات لینے کے حق کو استعمال کرتے کراچی کے صحافی عظمت خان 600 سے زیادہ درخواستیں جمع کروا چکے ہیں، جن میں سے 30 فیصد محکموں نے قانونی طور پر پابند ہونے کے باجود مطلوبہ معلومات مہیا نہیں کیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عظمت خان نے کہا کہ بطور صحافی انہیں مختلف محکموں کے متعلق ذرائع سے معلومات ملتی ہیں مگر اس معلومات کی بنیاد پر خبر لکھنے کے لیے انہیں ٹھوس ثبوت درکار ہوتے ہیں جو عام طور پر دستیاب نہیں ہو پاتے۔  

بقول عظمت خان : ’جب مجھے معلومات تک رسائی کے قانون کے متعلق معلوم ہوا تو میں نے اس قانون کے تحت مختلف سرکاری اداروں سے معلومات لینے کے لیے درخواستیں دینا شروع کیں۔ یہ درخواستیں وفاق، خیبر پختونخوا اور سندھ کی انفارمیشن کمیشنز کو بھیجی گئیں۔

’میں اب تک 600 سے زیادہ درخواستیں دے چکا ہوں۔ ان میں سے مجھے 70 فیصد اداروں کی جانب سے جوابات موصول ہوئے، جب کہ 30 فیصد نے معلومات نہیں دیں۔ دو فیصد درخواستیں تکنیکی وجوہات پر رد کر دی گئیں۔

’درخواستیں درست سوال اور معلومات کا دورانیہ نہ لکھنے اور کئی دیگر وجوہات کی بنا پر رد ہوئیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سب سے زیادہ جوابات وفاقی انفارمیشن کمیشن کی جانب سے دیے گئے۔ وفاق کے بعد سندھ کا اچھا ریسپانس رہا۔

’سندھ میں قومی احتساب بیورو (نیب) اور سندھ پولیس آسانی سے جوابات دیتے ہیں۔ یہ واحد ادارے ہیں جو میری درخواست پر کمیشن کے بجائے مجھے براہ راست جوابات بھیجتے ہیں۔ کچھ محکمے جواب دینے میں بہت تاخیر کرتے ہیں۔‘

عظمت خان نے کہا کہ کچھ سرکاری محکمے آر ٹی آئی قانون کے تحت معلومات دینے کے لیے قانون طور پر پابند ہونے کے باوجود جواب نہیں دیتے۔

عظمت خان کے مطابق: ’مجھے معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کراچی کے ایک پروفیسر کو دانت کے علاج کے لیے 45 لاکھ روپے جاری ہوئے۔ میں نے درخواست دی کہ یہ پروفیسر کون ہیں۔ ان کے دانت کا علاج کس قسم کا اور کہاں ہوا؟ مگر مجھے آج تک جواب نہیں ملا۔

’اس طرح میں نے سٹیٹ بینک آف پاکستان کو درخواست دی کہ 1000 قرض بینک ڈیفالٹرز کی فہرست دی جائے۔ جواب کے لیے کئی بار ریمائنڈر دیے مگر جواب نہیں ملا۔ سٹیٹ بینک نے جواب دینے کے بجائے وکیل کو بھاری رقم دے کر سندھ ہائی کورٹ میں کیس کر دیا۔

’کچھ معلومات ایسی ہوتی ہیں کہ اگر وہ ظاہر ہو جائیں تو عوام کو ہی فائدہ ہو گا۔ مگر قانون کے باوجود کچھ ادارے معلومات نہیں دیتے۔‘

معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت سرکاری محکموں کو کیا کرنا ہے؟

آئینی ماہر اور سندھ ہائی کورٹ کے سینیئر وکیل ڈاکٹر مرتضیٰ کھوڑو نے سندھ میں آر ٹی اے قانون پر عملدرآمد نہ ہونے پر سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس قانون کے تحت سرکاری محکمے ذاتی اور کاروباری راز کے علاوہ تمام معلومات عام شہریوں کو دینے کے پابند ہیں۔ اس کے علاوہ محکموں کو قانون کے تحت معلومات عام کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مرتضیٰ کھوڑو نے کہا: ’اس قانون کے تحت تمام پبلک آفیسرز اور سرکاری اداروں کو ویب سائٹ بنانا ہیں جہاں تمام معلومات بشمول وہ اخراجات جو کسی معاملے میں حقیقت میں خرچ کیے گئے ان کی تفصیلات رکھنا ضروری ہیں۔  

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مگر سندھ حکومت اس قانون پر عمل نہیں کر رہی۔ اس پر عدالت میں کارروائی چل رہی ہے۔‘

رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن سندھ کے کمشنر شاہد جتوئی کے مطابق: ’وقت گزرنے کے ساتھ سندھ کے کمیشن کو آر ٹی آئی قانون کے تحت عام شہریوں کی جانب سے ملنے والی درخواستوں میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد جتوئی نے کہا: ’جون 2022 سے اب تک سندھ کمیشن کو 1100 سے زائد درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، جن میں کمیشن نے 900 سے زیادہ درخواستوں پر متعلقہ سرکاری محکموں سے معلومات لے کر شہریوں کو دیں ہیں۔

’اس قانون کو عام شہری استعمال کریں اور معلومات لیں تو سرکاری محکموں میں شفافیت آئے گی۔ کرپشن کا خاتمہ ہو گا۔ جمہوریت مضبوط ہو گی۔‘

سرکاری محکموں کی جانب سے شہریوں کو معلومات نہ دینے کے سوال پر شاہد جتوئی نے تسلیم کیا کہ سندھ میں ماضی میں سرکاری ادارے شہریوں کو مطلوبہ معلومات دینے میں تاخیر کرتے تھے۔

بقول شاہد جتوئی کے ’پہلے ہم معلومات نہ دینے والوں اداروں کو نوٹس، شوکاز اور پینلٹی لگاتے تھے مگر اب سندھ میں سرکاری اداروں کا رویہ بہت بہتر ہوا ہے اور کئی ادارے پہلے نوٹس پر ہی جواب دے دیتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان