اسرائیل - فلسطین تنازعے کے عالمی عسکریت پسندی پر اثرات

جس طرح امریکہ نائن الیون حملوں کے بعد القاعدہ کو ختم کرنے میں ناکام رہا، اسی طرح اسرائیل حماس اور حزب اللہ کو ختم نہیں کر سکے گا۔

10 اگست، 2024 کو غزہ میں پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہونے والے ایک سکول پر اسرائیلی حملے کے بعد تباہی کے مناظر (اے ایف پی)

عسکریت پسندی اور عسکریت پسند تنظیمیں خلا میں کام نہیں کرتیں، بلکہ یہ عالمی جغرافیائی سیاست کی پیداوار ہیں۔ اسی لیے عالمی جغرافیائی سیاست اور عسکریت پسندی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

عالمی عسکریت پسند تنظیمیں عالمی جغرافیائی سیاست کے مطابق اپنے نظریاتی اہداف، آپریشنل اور بھرتی کی حکمت عملیوں کو بھی بدلتے حالات کے مطابق ڈھال لیتی ہیں۔

کئی حوالوں سے عالمی سیاسی واقعات عسکریت پسندی کے تغیر اور تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 

جیسا کہ سرد جنگ کے دور میں مغرب کی طرف سے عسکریت پسند گروہوں کو پراکسی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا، جب کہ نائن الیون کے بعد سابقہ ​​عسکریت پسند پراکسیز امریکہ پر حملہ کرنے کے سبب ’دہشت گرد‘ تنظیمیں بن گئی۔

پچھلی چار دہائیوں میں روس - افغان جنگ اور اس کے بعد 2000 کی دہائی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں القاعدہ اور داعش کے زیر قیادت عسکریت پسندوں کی دو نسلوں کا جنم ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ کئی مقامی اور علاقائی مزاحمتی تحریکیں بھی ابھریں جیسا کہ کشمیر میں مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی تنظیمیں لشکر طیبہ اور حرکت المجاہدین، فلسطین میں حماس اور فلسطینی اسلامی جہاد اور وسطی ایشیا میں اسلامی تحریک ازبکستان اور اسلامی جہاد کونسل۔

افغانستان اور عراق سے امریکی انخلا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ سے چین کے ساتھ جغرافیائی سیاسی تناؤ کی وجہ سے عالمی عسکریت پسندی نے اپنی اہمیت کھو دی ہیں۔

افغانستان میں طالبان کی فتح کے باوجود القاعدہ اور داعش اس وقت اپنی کمزور ترین سطح پر ہیں اور قیادت کے مارے جانے، علاقائی نقصانات، بڑے پیمانے پر حملے کرنے میں ناکامی کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات کی گرتی ہوئی اپیل کا شکار ہیں۔

ایک سال سے زائد عرصے سے اسرائیل فلسطین کشیدگی کے دوبارہ ابھرنے اور تسلسل برقرار رہنے کی وجہ سے عالمی عسکریت پسند تحریکیوں کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا ہے۔

تشویش کی بات یہ ہے کہ حماس کے آپریشن الاقصیٰ فلڈ سے شروع ہونے والی لڑائی اب مشرق وسطی ایک علاقائی تنازعے کی شکل اختیار کر رہی ہے، جس نے بھی لبنان اور ایران کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

آنے والے مہینوں میں اسرائیل - فلسطین تنازعے کا دورانیہ، تل ابیب کے لیے واشنگٹن کی حمایت اور اسرائیل کی عسکری جارحیت عالمی عسکریت پسندی کی نئی لہر میں تین اہم عوامل ثابت ہوسکتے ہیں۔

اسرائیل کے خلاف مسلم دنیا میں بڑھتا ہوا غصہ، مغرب کا دوہرا معیار اور اخلاقی منافقت عسکریت پسند گروہوں کو بھرتی کے لیے ایک موافق ماحول فراہم کرے گی۔

اگر اسرائیل - فلسطین تنازع طویل عرصے تک جاری رہتا ہے تو اس سے مسلم اور مغربی دنیا کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے کے کافی زیادہ امکانات ہیں۔

یہ فالٹ لائن القاعدہ اور داعش جیسے گروہوں کو مسلمانوں کے اسرائیل اور مغرب مخالف جذبات سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک راستہ فراہم کرسکتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی حماس کے پولیٹیکل بیورو چیف اسماعیل ہنیہ اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی اموات کے بدلے میں تل ابیب پر تہران کے بیلسٹک میزائل حملوں کے بعد اگر ایران - اسرائیل کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو تہران نئے پراکسی گروپ متحرک کر سکتا ہے۔

حالیہ برسوں میں مشرق وسطیٰ کے ممالک تیل پر مبنی معیشتوں سے نکلنے، روایتی مذہبی ماڈلز سے ہٹ کر اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سماجی واقتصادی اصلاحات اور انتہا پسندانہ نظریات کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کر رہے تھے۔

مگر حالیہ کشیدگی ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ کو پرانے طرز کی طرف لے جائے گی اور ایک نئی عسکریت پسند نسل کو جنم دے گی جو اسرائیل اور مغرب مخالف بیان بازی پر منحصر ہو گی۔

نتیجتاً، یہ عرب - اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں پر منفی اثرات ڈالتے ہوئے عسکریت پسندی کو مشرق وسطی کی سیاست میں برقرار رکھے گا۔

مشرق وسطیٰ کی حالیہ کشیدگی میں ہنیہ اور نصراللہ جیسے لیڈروں کی ایک پوری نسل ختم ہو چکی ہے جبکہ القاعدہ اور داعش پہلے ہی قیادت کے فقدان سے نبرد آزما ہیں۔

لہٰذا مشرق وسطیٰ میں عسکریت پسندوں کی نئی نسل کے متحرک ہونے سے عسکریت پسند رہنماؤں کی ایک نئی نسل بھی پیدا ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1980 کی دہائی میں روس اور افغان جنگ نے عبداللہ عزام، اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری جیسی عسکریت پسند شخصیات کو جنم دیا تھا۔

اسی طرح 9/11 کے بعد کی جنگجوؤں کی نسل کی نمائندگی ابو مصعب الزرقاوی اور ابو بکر البغدادی نے کی تھی جبکہ اسی طرح موجودہ تناؤ اور وقتی قیادت کا خلا ایک نئی قیادت کو جنم دے گا۔

اگرچہ داعش اور القاعدہ اسرائیل - فلسطین تنازعے میں براہ راست حصہ نہیں لے سکتیں، لیکن وہ اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی وسیع بدامنی کا فائدہ اٹھائیں گی۔

مثال کے طور پر وہ اسرائیل کو مدد فراہم کرنے کے لیے مغرب میں حملوں کی ہدایت اور حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کریں گی۔

دوسری طرف اسرائیل کی حمایت کرنے پر مغرب کے خلاف مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے غم و غصے کی وجہ سے مغرب میں اسلاموفوبیا میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

سفید فام گروہ تارکینِ وطن بالخصوص مسلمانوں کو مغرب میں ہونے والی تمام برائیوں کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور مسلمانوں کو مغرب سے نکالنے کی وکالت کر رہے ہیں۔

عسکریت پسندوں کے درمیان اس طرح کے پروپیگنڈا باہمی بنیاد پرستی کو جنم دے سکتا ہے۔

مختصراً یہ کہ جس طرح سے امریکہ 9/11 کے حملوں کے بعد القاعدہ کو ختم کرنے میں ناکام ہوا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کرکے افغانستان سے نکلا۔ اسی طرح اسرائیل حماس اور حزب اللہ کو ختم نہیں کر سکے گا۔

فلسطینیوں کی مزاحمت اس وقت تک زندہ رہے گی جب تک دو ریاستی حل تلاش نہیں کیا جاتا اور اسرائیلی مظالم بند نہیں ہوتے۔

اس کے برعکس مزاحمت اور عسکری طاقت ختم کرنے کا اسرائیلی جنون تنازعے کو طول دے گا اور عسکریت پسندوں کی ایک نئی نسل جنم لے گی۔ بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ کی حالیہ پیش رفت دیکھیں تو یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔

مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ ٹوئٹر:@basitresearcher

نوٹ: تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ