وزیرستان: عسکریت پسندوں سے جھڑپ، لیفٹیننٹ کرنل سمیت چھ اہلکاروں کی موت

آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستانی فوج کے ایک دستے اور عسکریت پسندوں کے درمیان گذشتہ شب شمالی وزیرستان کے علاقے سپین وام میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

پاکستانی فوج کے سپاہی 27 جنوری 2019 کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع شمالی وزیرستان کے ایک قصبے غلام خان میں سرحدی ٹرمینل پر پہرہ دے رہے رہیں (اے ایف پی)

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک لیفٹیننٹ کرنل سمیت چھ سکیورٹی اہلکار جان سے چلے گئے جب کہ چھ عسکریت پسند بھی مارے گئے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ہفتے کو جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ شدید فائرنگ کا تبادلہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے سپن وام میں ہوا۔

بیان کے مطابق جان سے جانے والے سکیورٹی اہلکاروں میں دستے کے کمانڈر 43 سالہ لیفٹیننٹ کرنل محمد علی شوکت بھی شامل تھے، ’جنہوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے جوانوں کی قیادت کی اور شہادت حاصل کی۔‘

آئی ایس پی آر کے مطابق جان سے جانے والے دیگر سکیورٹی اہلکاروں میں ضلع خیبر کے 31 سالہ لانس نائیک محمد اللہ، ضلع لکی مروت کے 30 سالہ لانس نائیک اختر زمان، ضلع ٹانک کے 29 سالہ لانس نائیک شاہد اللہ، ضلع اورکزئی کے 31 سالہ لانس نائیک یوسف علی اور ضلع سوات کے 26 سپاہی جمیل احمد شامل ہیں۔

بیان میں بتایا گیا کہ ’علاقے میں موجود عسکریت پسندوں کے خلاف سینی ٹائزیشن آپریشن جاری ہے کیونکہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستانی فوج کے شعبہ ابلاغ عامہ کے بیان کے مطابق سپن وام میں ہونے والی فائرنگ کے اس تبادلے میں چھ عسکریت پسند بھی مارے گئے۔ 

حالیہ دنوں میں صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی کے کئی واقعات ہوئے ہیں، جن میں سکیورٹی فورسز سمیت عام شہری بھی جان سے گئے۔

رواں برس جولائی کے وسط میں خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں فوجی چھاؤنی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک دیہی صحت کے مرکز پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں 28 افراد جان سے چلے گئے تھے، جن میں 10 فوجی، دو خواتین ہیلتھ ورکرز اور دو بچے بھی شامل تھے۔

پاکستانی حکام کے مطابق بنوں چھاؤنی پر حملے میں حافظ گل بہادر گروپ ملوث تھا۔

پاکستان نے ماضی میں بھی بارہا یہ کہا ہے کہ حافظ گل بہادر گروپ سمیت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسند افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں سے پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔

جولائی میں ہی اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں ’سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم‘ ہے اور اسے پاکستان میں سرحد پار حملے کرنے کے لیے طالبان حکمرانوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی حمایت حاصل ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ افغان طالبان ’تحریک طالبان پاکستان کے خطرے کو سنبھالنے میں ناکام یا نااہل ثابت ہوئے ہیں،‘ اور یہ کہ ’طالبان کی ٹی ٹی پی کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

مزید یہ کہ ’طالبان ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتے، ان کے تعلقات قریبی ہیں اور طالبان پر ٹی ٹی پی کا بہت بڑا قرض ہے۔‘

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بھی گذشتہ ماہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان میں ’سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم‘ قرار دیا تھا، جو بقول ان کے افغان عبوری حکومت کی مکمل حمایت، تحفظ اور پاکستان کے بڑے دشمن کی سرپرستی کے ساتھ ملک میں تقریباً ’روزانہ دہشت گرد حملے‘ کر رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان