خیبر: جھڑپوں میں چار عسکریت پسند مارے گئے، تین اہلکار بھی جان سے گئے

پاکستانی فوج کے مطابق ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں جمعے کو تین مختلف مقامات پر سکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں چار عسکریت پسند مارے گئے جبکہ تین فوجی اہلکار بھی جان سے گئے۔

پاکستانی فوجی 18 جولائی 2014 کو ضلع خیبر کے گاؤں غنڈئی میں عسکریت پسندوں کے ایک سکیورٹی قافلے پر حملے کے بعد جائے وقوعہ کے قریب گشت کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں جمعے کو تین مختلف مقامات پر سکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں چار عسکریت پسند مارے گئے جبکہ تین فوجی اہلکار بھی جان سے گئے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ علاقے میں ممکنہ طور پر موجود عسکریت پسندوں کے خلاف سینی ٹائزیشن آپریشن جاری ہے۔

مزید کہا گیا: ’پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔‘

حالیہ دنوں میں صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شدت پسندی کے کئی واقعات ہوئے ہیں، جن میں سکیورٹی فورسز سمیت عام شہری بھی جان سے گئے۔

گذشتہ ماہ جولائی کے وسط میں خیبر پختونخوا کے شہر بنوں میں فوجی چھاؤنی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک دیہی صحت کے مرکز پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں 28 افراد جان سے چلے گئے تھے، جن میں 10 فوجی، دو خواتین ہیلتھ ورکرز اور دو بچے بھی شامل تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستانی حکام کے مطابق بنوں چھاؤنی پر حملے میں حافظ گل بہادر گروپ ملوث تھا۔

پاکستان نے ماضی میں بھی بارہا یہ کہا ہے کہ حافظ گل بہادر گروپ سمیت کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے شدت پسند افغانستان میں موجود ہیں اور وہاں سے پاکستان میں کارروائیاں کرتے ہیں۔

 جولائی میں ہی اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں ’سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم‘ ہے اور اسے پاکستان میں سرحد پار حملے کرنے کے لیے طالبان حکمرانوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی حمایت حاصل ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ افغان طالبان ’تحریک طالبان پاکستان کے خطرے کو سنبھالنے میں ناکام یا نااہل ثابت ہوئے ہیں،‘ اور یہ کہ ’طالبان کی ٹی ٹی پی کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

مزید یہ کہ ’طالبان ٹی ٹی پی کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتے، ان کے تعلقات قریبی ہیں اور طالبان پر ٹی ٹی پی کا بہت بڑا قرض ہے۔‘

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بھی جمعے کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ تحریکِ طالبان پاکستان اور داعش خراسان پوری دنیا کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ 

انہوں نے ویڈیو نیوز سروسز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا: ’داعش خراسان کا دہشت گردی کا نظریہ پوری دنیا کے لیے ہے، ٹی ٹی پی کی وابستگی القاعدہ کے ساتھ ہے۔

’القاعدہ کا بھی عالمی ایجنڈا ہے۔ اس وقت ان کے حملوں کا رخ پاکستان کی طرف ہے۔ ہمیں یہ شبہ اور ڈر ہے کہ دہشت گردی پورے خطے میں پھیلے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان