انسداد عسکریت پسندی کی ملکیت سٹیک ہولڈرز کو لینا ہو گی

اس صورت حال میں کوئی حل نکالنا صرف فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بس کی بات نہیں بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز خصوصاً سیاسی جماعتوں کو آنے والی نسلوں کے لیے عسکریت پسندی کے خلاف پالیسی اور سٹریٹیجی کی ملکیت لینا ہو گی۔

 سوات کے قصبے کبل میں انسداد دہشت گردی کے ایک خصوصی پولیس سٹیشن میں 25 اپریل 2023 کو گولہ بارود کے ذخیرے میں ہونے والے متعدد دھماکوں کے ایک دن بعد سکیورٹی حکام جائے وقوعہ کا معائنہ کر رہے ہیں (عبدالمجید/ اے ایف پی)
 

معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن کی جانب بڑھ رہے ہیں اوراب تو شاید نتیجہ بھی قریب آ چکا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہو، تحریک انصاف ہو یا پھر پی ٹی ایم اور مولانا، سب کی تنقید کا ہدف اس وقت اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔

بغیر اس بحث میں پڑے کہ کون غلط اور کون ٹھیک، موجودہ حالات اس ملک کے لیے تھوڑا سا بھی درد رکھنے والے پاکستانیوں کے لیے ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔

بات سیاسی انتشار اور عدم استحکام سے بہت آگے بڑھ چکی ہے لیکن بجائے بریک لگانے کے ہر طرف ایکسیلیریٹر کو ہی دبایا جا رہا ہے۔ ہمارے اصل مسائل حل نہ ہوئے تو خدانخواستہ وہ اس ملک کو نگل لیں گے۔ ہماری گرتی ہوئی بیمار معیشت اور دہشت گردی ایسے مسائل ہیں جن پر اگر توجہ نہ دی گئی تو حالات قابو میں نہیں رہیں گے۔

گذشتہ کالم تیزی سے بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر تحریر کیا تھا اور اس اپیل کے ساتھ کہ اس مسئلے پر سیاست نہ کی جائے۔ لیکن نہ صرف حزب اختلاف کی زیادہ تر جماعتیں اس مسئلے پر سیاست ہی کر رہی ہیں بلکہ حکومت بھی کل جماعتی کانفرنس کا اعلان کر کے شاید کہیں مصروف ہوگئی ہے۔

شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب فوج اور پولیس کے جوانوں کی نعشیں نہ گریں۔ ان کی میتیں اسی ملک کے گھروں میں جا رہی ہیں۔

معیشت کی بحالی کے لیے اگر دن رات ایک کر کے بھی کام کیا جائے لیکن جہاں امن اور سکیورٹی نہ ہو وہاں معاشی استحکام تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

 

گذشتہ کالم میں بھی تحریر کر چکا ہوں کہ دہشت گردی نے چار دہائیوں سے ہمارے ملک، معاشرے اور ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے اور آرمی پبلک سکول جیسے کئی تو ایسے سانحے اور واقعات ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا حتیٰ کہ انڈیا کو بھی رلا دیا تھا۔

ہم بےنظیر بھٹو اور بشیر بلور جیسے توانا رہنما اور کئی جید علما دین کھو چکے ہیں۔ پولیس اور فوج جتنی قربانیاں دے چکے ہیں وہ بےحساب ہیں۔

آخری بار جب سوات اور سابق قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے آپریشن کیے گئے تو اس کے بعد ہم نے ملک کو امن کی طرف واپس لوٹتے دیکھا۔ لاکھوں لوگ بےگھر ہوئے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی گئیں تب کہیں جا کر پاکستانیوں بالخصوص پختونوں نے سکھ کا سانس لیا۔

لیکن اس کے بعد جب اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیا تو ہم نے اسے اپنی جیت سمجھا اور دنیا کے سامنے اس کا ڈھنڈورا بھی پیٹا۔ غلامی کی زنجیریں توڑنے والے بیان سے لے کر کابل میں آئی ایس آئی کے اس وقی کے سربراہ کی چائے کی پیالی کی تصویر تک وہ واقعات ہیں جن میں ہم نے کھل کر طالبان کی جیت کا جشن منایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

باوجود اس کے کہ ہم جیسے کچھ لوگ یہ کہتے رہے کہ طالبان کی فتح کا سپیل اوور آئے گا اور اس کے بعد پاکستان خصوصاً پختونخوا اور سابق فاٹا میں عسکریت پسند تنظیمیں مضبوط ہوں گی۔ لیکن ہمیں کہا گیا نہیں اب نہ تو انڈیا افغانستان کے رستے پاکستان میں مداخلت کر سکے گا اور نہ ٹی ٹی پی وہ کر سکے گی جو اس سے پہلے افغانستان سے کرتی آئی ہے۔

ہم نے دنیا کو ایک دفعہ پھر یہ بھی باور کروایا کہ دیکھیں طالبان ہمارے زیراثر ہیں۔ ہماری سنتے ہیں ہم سنبھال لیں گے۔ ہم انہیں سنبھالتے کیا، انہیں سنبھالتے کی تگ و دو میں ایسی ڈگر پر چل پڑے کہ افغان طالبان اس وقت پاکستان کے ایک دشمن ہمسائے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

ایسی صورت حال میں آگے کی راہ نکالنا صرف فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بس کی بات نہیں بلکہ تمام سٹیک ہولڈرز خصوصاً سیاسی جماعتوں کو سیاست کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنے آنے والی نسلوں کے لیے عسکریت پسندی کے خلاف پالیسی ہو حکمت عملی یا جنگ ہو اس کی ملکیت لینا پڑے گی۔

میڈیا کو بھی بجائے اس پر بحث کرنے کہ عزم استحکام آپریشن ہے حکمت عملی ہے یا پالیسی بلکہ توجہ اس پر ہونا چاہیے کہ عسکریت پسندی کے خلاف اس جدوجہد کے لیے اتفاق رائے کیسے پیدا کیا جائے؟

اس تحریر کے مصنف عادل شاہزیب صحافی، تجزیہ کار اور ٹیلی ویژن اینکر ہیں۔ 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جن سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ