پاکستان انگلینڈ کرکٹ: سنسنی خیز لمحات اور تنازعات ساتھ ساتھ

آج سے 41 سال قبل انگلینڈ کے آل راؤنڈر ایئن بوتھم نے یہ طنزیہ بات کہی تھی کہ پاکستان وہ جگہ ہے جہاں آپ اپنی ساس کو ایک ماہ کے لیے بھیج سکتے ہیں۔

16 جولائی 2023، کی اس تصویر میں پاکستانی فاسٹ بولر شاہین آفریدی ٹیسٹ کرکٹ میں 100ویں وکٹ حاصل کرنے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے (اے ایف پی)

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز پیر سے ملتان میں شروع ہو رہی ہے۔ 

میں اپنی بات انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹر ڈیوڈ لائیڈ کی اس ویڈیو سے شروع کرنا پسند کروں گا جس میں وہ انگلش شائقین کو کہہ رہے ہیں کہ پاکستان جا کر کرکٹ اور پاکستان کی روایتی مہمان نوازی دونوں سے لطف اندوز ہوں۔

ڈیوڈ لائیڈ خود پاکستان کی مہمان نوازی دیکھ چکے ہیں اسی لیے وہ یہ بات اپنے لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ کرکٹ کے نقطہ نظر سے پاکستان ایک بہترین جگہ ہے اور یقیناً انگلش شائقین اس دورے کو انجوائے کریں گے۔

ڈیوڈ لائیڈ کی ویڈیو ظاہر کرتی ہے کہ انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کے میدانوں میں کسی زمانے میں جو تلخیاں اور تنازعات ہوا کرتے تھے وہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتے چلے گئے ہیں۔

آپ کو یاد ہو گا کہ آج سے 41 سال قبل انگلینڈ کے آل راؤنڈر ایئن بوتھم نے یہ طنزیہ بات کہی تھی کہ پاکستان وہ جگہ ہے جہاں آپ اپنی ساس کو ایک ماہ کے لیے بھیج سکتے ہیں۔

آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ دو سال پہلے جب انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آئی تھی تو اس سیریز کی کوریج کے لیے آنے والے انگلینڈ کے صحافیوں، کمنٹیٹرز اور شائقین نے اس دورے کے ایک ایک لمحے کو انجوائے کیا تھا اور وہ ان لمحات کو ابھی بھی یاد کرتے ہیں۔

اس کے باوجود جب بھی پاکستان انگلینڈ سیریز ہوتی ہے تو جہاں ماضی کے چند یادگار میچوں کا ذکر ہوتا ہے وہیں وہ ناخوشگوار واقعات اور تنازعات بھی یاد آجاتے ہیں جو ان مقابلوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

جہاں تک دونوں ٹیموں کے درمیان سنسنی خیز ٹیسٹ میچوں کا تعلق ہے تو اس فہرست میں شامل ہونے والا پہلا ٹیسٹ 1954 کا اوول ٹیسٹ ہے جو پاکستان نے فضل محمود کی یادگار بولنگ کے بل پر ڈرامائی انداز میں صرف 24 رنز سے جیت کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

اور ان بڑے بڑے مبصرین کو خاموش کرا دیا تھا جو اس وقت کہہ رہے تھے کہ پاکستانی ٹیم نہ صرف انگلینڈ کے دورے کی بلکہ ٹیسٹ رکنیت حاصل کرنے کی بھی اہل نہیں۔

1971 کی سیریز کے ہیڈنگلے ٹیسٹ میں بھی سنسنی خیزی اپنے عروج پر تھی جب پاکستانی ٹیم کو جیتنے کے لیے صرف 231 رنز کا ہدف ملا تھا۔

لیکن پوری ٹیم 205 رنز پر آؤٹ ہو کر نہ صرف ٹیسٹ ہاری تھی بلکہ انگلینڈ کی سرزمین پر پہلی بار ٹیسٹ سیریز جیتنے کا سنہری موقع بھی گنوا بیٹھی تھی۔

پاکستان انگلینڈ ٹیسٹ میچز میں تیسرا دلچسپ میچ جو ذہن میں آتا ہے وہ 1992 کا لارڈز ٹیسٹ ہے۔

اس میچ میں پاکستان نے وسیم اکرم اور وقار یونس کی ذمہ دارانہ بیٹنگ کی بدولت 138 رنز کا معمولی ہدف عبور کرتے ہوئے آٹھ وکٹیں صرف 95 رنز پر گنوانے کے بعد دو وکٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔

اور پھر 2000 کی سیریز کا کراچی ٹیسٹ کون بھول سکتا ہے جب سڑکوں پر سٹریٹ لائٹس جلنا شروع ہو چکی تھیں اور اس تاریکی میں انگلینڈ نے کامیابی حاصل کر کے نیشنل سٹیڈیم میں پاکستان کے ناقابل شکست رہنے کا سلسلہ ختم کر دیا تھا۔

انہی دلچسپ ٹیسٹ میچوں میں شامل ملتان کے وہ دو ٹیسٹ میچ بھی ہیں جن میں 2005 کا ٹیسٹ پاکستان کی 22 رنز کی جیت پر ختم ہوا تھا۔

2022 میں جیت کا فرق 22 رنز تھا لیکن اس مرتبہ فاتح ٹیم انگلینڈ تھی۔ یہ وہی ٹیسٹ ہے جس میں لیگ سپنر ابرار احمد نے اپنا ٹیسٹ کریئر گیارہ وکٹوں کی شاندار کارکردگی سے شروع کیا تھا۔

جہاں تک تنازعات کی بات ہے تو 1956 میں ایم سی سی کے دورہ پاکستان کے موقع پر امپائر ادریس بیگ کے ساتھ انگلش کھلاڑیوں کی شرمناک حرکت جس میں انہیں اغوا کرکے ہوٹل کے کمرے میں بند کر دیا گیا اور ان پر پانی کی بالٹی انڈیل دی گئی تھی۔

1987 کا فیصل آباد ٹیسٹ امپائر شکور رانا اور انگلینڈ کے کپتان مائیک گیٹنگ کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔

1992 اور 2006 کے دوروں میں پاکستانی کھلاڑیوں پر بال ٹمپرنگ کے الزامات لگے۔

2006 میں تو صورت حال اس قدر سنگین ہوگئی تھی کہ انضمام الحق کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے کھیلنے سے انکار کر دیا تھا اور آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہیئر نے اوول ٹیسٹ ختم کر کے انگلینڈ کو فاتح قرار دے دیا تھا۔

2010 میں بدنام زمانہ سپاٹ فکسنگ سکینڈل جس میں ملوث تین پاکستانی کرکٹرز سلمان بٹ، محمد آصف اور محمد عامر کو جیل بھی جانا پڑگیا تھا۔

ان دلچسپ اور متنازع میچوں کے بعد اب ذکر ہوجائے پاکستانی کرکٹ کی موجودہ صورت حال کا۔

کہتے ہیں کہ پاکستان کی کرکٹ میں کوئی دن اہم خبر کے بغیر نہیں رہتا۔

انگلینڈ کی ٹیم بھی ایسے وقت میں پاکستان آئی ہے جب پہلے سابق ٹیسٹ کرکٹر محمد یوسف نے سلیکٹر کے عہدے سے استعفے کا اعلان کیا اور پھر بابراعظم نے وائٹ بال کی کپتانی کو خیرباد کہنے کا اعلان کر دیا۔

ان دونوں استعفوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر مختلف تبصرے اور تجزیے ہو رہے ہیں۔

ان استعفوں کے پس پردہ محرکات اور وجوہات کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ بات سب نے واضح طور پر محسوس کی ہے کہ محمد یوسف اور بابراعظم دونوں نے اپنے استعفوں کے لیے سوشل میڈیا کا انتخاب کیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو یہ موقع کیوں فراہم نہیں کیا کہ وہ یہ دونوں اعلانات کرتا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بابراعظم نے ایکس ( سابقہ ٹوئٹر ) پر اپنے استعفے کا اعلان کیا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ذکا اشرف کے دور میں بھی انہوں نے کپتانی چھوڑنے کا اعلان ٹوئٹر پر ہی کیا تھا۔

بابراعظم کا یہ استعفی فوری توجہ کا مرکز شاید اس لیے نہ ہو کہ ابھی پاکستان کی کوئی وائٹ بال سیریز نہیں ہے بلکہ اس وقت تمام تر توجہ انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز پر مرکوز ہے۔

لیکن اس مصروف ترین انٹرنیشنل سیریز میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کو انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے فوراً بعد نومبر میں آسٹریلیا کا دورہ کرنا ہے جہاں اسے تین ون ڈے انٹرنیشنل اور تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلنے ہیں۔

آسٹریلیا سے پاکستانی ٹیم کو زمبابوے جانا ہے جہاں تین ون ڈے اور تین ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل اس کے منتظر ہوں گے۔

اس کے بعد جنوبی افریقہ کا دورہ ہے جس میں دو ٹیسٹ تین ون ڈے اور تین ٹی ٹوئنٹی کھیلے جائیں گے اور پھر چیمپئنز ٹرافی سے قبل پاکستان کو جنوبی افریقہ اور نیوزی لینڈ کے ساتھ یہاں سہ فریقی ون ڈے سیریز کھیلنی ہے۔

جنوبی افریقہ کے علاوہ صرف ایک اور ٹیسٹ سیریز ویسٹ انڈیز کے خلاف ہے۔ مطلب یہ کہ چیمپئنز ٹرافی کے تناظرمیں یہ سیزن ون ڈے کرکٹ کے لحاظ سے پاکستانی ٹیم کے لیے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

پاکستان کا مقابلہ اس وقت انگلینڈ کی جس ٹیم سے ہے وہ اس وقت ٹیسٹ کرکٹ کی عالمی رینکنگ میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کا نمبر آٹھواں ہوچکا ہے۔

یہ صورت حال ظاہر ہے کوئی اچھی نہیں ہے کیونکہ پاکستان نے جس فارمیٹ میں ہمیشہ اچھی کارکردگی دکھائی ہے یعنی ٹی 20 ، اس کی عالمی رینکنگ میں بھی وہ اس وقت ساتویں نمبر پر ہے۔

ون ڈے میں پاکستان کی رینکنگ اس وقت چوتھی ہے لیکن اس نے آخری ون ڈے گذشتہ سال انڈیا میں ہونے والا ورلڈ کپ میں کھیلا تھا اور اس کے بعد سے ابھی تک پاکستان ون ڈے انٹرنیشنل نہیں کھیلا ہے۔

یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے گذشتہ دورہ آسٹریلیا میں تین صفر کی شکست کے باوجود چند مثبت پہلو سامنے آئے تھے۔

لیکن اسے جس طرح بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز میں شکست ہوئی اس سے شائقین کی مایوسی میں اضافہ ہو گیا ہے اور اب یہ انگلینڈ کی سیریز پاکستانی ٹیم کے لیے کسی کڑی آزمائش سے کم نہیں ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ ٹیسٹ سیریز صرف کپتان شان مسعود اور ہیڈ کوچ جیسن گلیسپی کے لیے چیلنج ہو بلکہ ٹیم کے تقریباً ہر کھلاڑی کے لیے یہ سیریز غیرمعمولی اہمیت اختیار کر چکی ہے۔

 چاہے وہ بابراعظم ہوں یا شاہین آفریدی۔ عبداللہ شفیق ہوں یا نسیم شاہ، ہر ایک کو اپنی پرفارمنس سے ٹیم میں اپنی موجودگی کا جواز ثابت کرنا ہے۔

اگر ہم انفرادی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو بابراعظم کا بڑا سکور نہ کرنا پاکستان کے نقطہ نظر سے پریشان کن ہے۔

دسمبر 2022 میں نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ کی سنچری کے بعد سے وہ اب تک 16 اننگز میں ایک نصف سنچری تک نہیں بنا پائے ہیں۔

عبداللہ شفیق نے ایک قابل اعتماد اوپنر کی حیثیت سے ٹیم میں جگہ بنائی ہے لیکن حالیہ کارکردگی مایوس کن ہے۔

سری لنکا کے خلاف ڈبل سنچری کے بعد سے وہ 10 اننگز میں صرف ایک نصف سنچری بنا سکے ہیں اور اس دوران وہ تین مرتبہ صفر پر آوٹ ہوئے ہیں جن میں ایک پیئر بھی شامل ہے۔

شاہین آفریدی کی بولنگ پر بھی کافی بات ہورہی ہے کہ ان کی رفتار اب پہلے جیسی نہیں رہی ہے۔

ان کے ورک لوڈ پر بھی بات ہو رہی ہے۔ حالیہ چیمپئنز ون ڈے کپ میں تقریباً ہر میچ میں ان کی بولنگ پر کافی رنز بنے۔

انگلینڈ کے خلاف سیریز ان کے لیے بھی بہت اہم ہے کہ وہ انگلش بیٹسمینوں پر کیا تاثر چھوڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سب سے مایوس کن پہلو یہ ہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم ہوم سیریز بھی جیت نہیں پارہی ہے

۔جنوبی افریقہ کے خلاف ہوم سیریز جیتنے کے بعد سے وہ آسٹریلیا انگلینڈ اور بنگلہ دیش کے خلاف ہوم سیریز ہار چکی ہے جبکہ نیوزی لینڈ سے سیریز ڈرا ہوئی تھی ۔

یعنی ہوم گراؤنڈ پر دس ٹیسٹ میچز جیت کے بغیر ہو چکے ہیں۔

کرکٹ اس وقت وہ واحد کھیل بچا ہے جس میں اب بھی پوری قوم کی غیرمعمولی دلچسپی اور جوش وخروش باقی ہے۔

انٹرنیشنل کرکٹ تو اپنی جگہ پاکستانی کھلاڑی جب ڈومیسٹک کرکٹ کے کسی ایونٹ میں نظر آتے ہیں تو شائقین کی دلچسپی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے جس کا نظارہ ہم حالیہ چیمپئنز ون ڈے کپ کے میچوں میں دیکھ چکے ہیں۔

لیکن کوئی بھی نہیں چاہتا کہ مسلسل شکستیں کرکٹ کو اس مقام پر لے جائیں جہاں اس وقت پاکستان کی ہاکی اور سکواش کھڑے ہیں۔

شائقین کی مایوسی دور کرنے کا صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے جیت۔

نوٹ: تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر