پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کے پیش نظر دارالحکومت اسلام آباد کو نہ صرف اندر سے بند کر دیا گیا ہے بلکہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں کو بھی کنٹینرز سے بلاک کر دیا گیا ہے۔
سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر طنزیہ انداز میں اسلام آباد کو ’کنٹینرستان‘ بھی کہتے ہیں کیونکہ جب بھی احتجاج اور دھرنا ہوتا ہے تو وہ کنٹینر کے بغیر ادھورا ہی لگتا ہے۔
اسی طرح پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے جب بھی کوئی بڑا احتجاج یا دھرنا دیا جاتا ہے تو مرکزی قائدین کے لیے کنٹینر کا بندوبست کیا جاتا ہے جس پر سٹیج، ساؤنڈ سسٹم اور دیگر سامان نصب کیا جاتا ہے۔
تاہم یہ کنٹینر کبھی بھی اس مقصد کے لیے نہیں لگائے گئے تھے اور جس مقصد کے لیے بنائے گئے تھے، اس سے دنیا میں ایک معاشی انقلاب سامنے آیا تھا۔
کنٹینر کب اور کیسے ایجاد ہوا؟
ایم سی کنٹینرز کینیڈا کی کنٹینر کی سروسز دینے والی معروف کمپنی ہے جو دنیا بھر کے کارگو جہاز کو کنٹینرز کرائے پر دیتے ہیں۔
اسی کمپنی کے مطابق کنٹیبر بنانے کی تاریخ بہت دلچسپ ہے اور یہ 1766 کی بات ہے جب امریکہ کے جینس برینڈلی نامی شخص نے کوئلے کی منتقلی کے لیے ایک کشتی بنائی۔
اسی کشتی میں انہوں نے چھوٹے کنٹینرز رکھنے کے لیے 10 جگہیں بنائیں اور اسی میں کوئلہ رکھ کر کشتی میں لوڈ کیا جاتا تھا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا۔
تاہم یہ کنٹینرز سائز میں چھوٹے ہوتے تھے اور یہ کنٹینرز 1795 میں انگریش بینجیمین اوٹران نے بنائے تھے اور گھوڑوں کی مدد سے کوئلے کے کان سے کوئلے سے بھرا کنٹینر نکالا جاتا تھا اور منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد آف لوڈ کیا جاتا تھا۔
اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا اور 1830 کی دہائی میں بعض ممالک میں ریل گاڑی کے ذریعے لکڑی سے بنے کنٹینرز کے ذریعے کوئلہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا اور اس میں زیادہ سے زیادہ چار کنٹینرز فٹ ہوتے تھے۔
اس کے بعد 1840 کی دہائی میں لوہے سے بنے کنٹینر باکس کا استعمال شروع ہوگیا جس کے ذریعے سامان کو منتقل کیا جاتا تھا اور 20 ویں صدی میں جنگ عظیم دوئم سے کچھ عرصہ پہلے موجودہ کنٹینرز کی شکل کے کنٹینرز کا استعمال شروع ہو گیا۔
اسی طرح 1927 میں لندن اور پیرس کے مابین سفر کے دوران مسافروں کا سامان لوہے کے بنے کنٹینرز میں رکھ کر ٹرانسپورٹ کیا جاتا تھا۔
دوسرا صنعتی انقلاب اور کنٹینرز
دنیا میں 19 ویں اور 20 ویں صدی میں دوسرا صنعتی انقلاب شروع ہوا اور سمندر کے ذریعے کارگو کی منتقلی میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔
تاہم ایم سی کنٹینرز کے مضمون کے مطابق ان کنٹینرز کو سامان سے لوڈ کرنے میں بہت زیادہ وقت اور مزدور درکار ہوتے تھے اور بعض اوقات سامان کو لادھنے میں ہفتے لگتے تھے۔
تاہم اس دوران کنٹینرز کے لیے کوئی معیار یا سائز وضع نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی باقاعدہ طور پر کنٹینرز کی کوالٹی کو چیک کرنے کے لیے کوئی طریقہ کار موجود تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرک کے کاروبار سے کنٹینر بنانے تک
اب آتے ہیں جدید دور کے کنٹینرز بنانے کی طرف جس کے موجد مالکم میکلین کو سمجھا جاتا تھا جو امریکہ میں 1913 میں پیدا ہوئے تھے۔
مالکم نے کئی سال محنت کے بعد 1934 میں اپنی ٹرک بنانے کی ایک کمپنی بنائی اور اس وقت ان کے پاس اپنے پانچ ٹرک موجود تھے۔
ایک دفعہ مالکم روئی کو ٹرک میں ٹرانسپورٹ کر رہے تھے اور 1937 میں انہوں نے دیکھا کہ ٹرک کو لوڈ کرنے میں اور سامان کی پیکنگ پر وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہو جاتا ہے۔
مالکم کی کمپنی 1950 تک امریکہ کی بڑی ٹرک کمپنیوں میں شمار ہوتی تھیا اور اس وقت ان کے پاس 1750 ٹرک اور 37 ٹرانسپورٹیشن ٹرمنلز تھے اور یہ کمپنی امریکہ کی پانچ بڑی کمپنیوں میں شامل تھی۔
تاہم اسی دوران امریکہ میں سامان کی ترسیل کے لیے وزن اور اس پر ٹیکس لگانے کا آغاز ہوگیا تھا اور خلاف ورزی پر مالکم کے ٹرک ڈرائیورز کو آئے روز جرمانہ بھرنا پڑتا تھا۔
یہی وہ وقت تھا جب جدید کنٹینرز بنانے کا آغاز ہو گیا اور مالکم نے 1955 میں اپنی ٹرک کے کاروبار کو بیچ کر کچھ قرض لے کر اس وقت پان اٹلانٹک سٹنشپ کمپنی جو اب ’سی لینڈ کمپنی‘ ہے خریدی جن کے پہلے سے کئی بندرگاہوں پر ٹرمنلز بھی موجود تھے۔
مالکم کے مطابق ٹرک سے کنٹینر بہت بہتر اس لیے ہوگا کہ اس میں سامان آسانی سے لوڈ کر کے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے گا جبکہ کنٹینرز بھی مالکم کی کمپنی نے معیاری بنانا شروع کیے۔
انہوں نے اس وقت موجودہ 20 یا 40 انچ کنٹینرز کے بجائے 35 انچ کنٹینرز بنائے تھے جو مضبوط، پائیدار تھے اور اس میں لاک کرنے کا سسٹم بھی نصب کیا تھا۔
مالکم نے جنگ عظیم دوئم سے بچنے والے کچھ ٹینکرز بھی خریدے تھے اور اس کو موڈیفائی کیا تھا جس میں 58 کنٹینرز رکھنے کی گنجائش تھی اور پہلا کنٹینر سے بھرا ٹینکر نیو جرسی سے امریکہ کے ہوسٹن شہر بذریعہ بحری جہاز روانہ ہو گیا۔
اس کے بعد 60 کی دہائی میں مالکم کی کمپنی نے سکاٹ لینڈ، ہالینڈ، ویتنام، سمیت ایشیائی ممالک میں کنٹینرز فروخت کرنا شروع کر دیے اور 1969 تک اس کمپنی کے 36 کنٹینرز بحری جہاز، 27 ہزار کنٹینرز اور30 بندرگاہیں تھیں۔
اس کے بعد دنیا بھر میں کارگو کی ترسیل کے لیے کنٹینرز کا استعمال شروع کیا گیا اور اب سامان کی ترسیل کے لیے کنٹینر ایک آسان ذریعہ ہے۔
کنٹینر پر سامان کی ترسیل پر کم خرچہ آنے کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 1956 میں دیگر ذرائع سے سامان کی فی ٹن ترسیل پر تقریباً پانچ ڈالر خرچہ تھا جو کنٹینر کی ایجاد سے 0.16 ڈالر فی ٹن پر آگیا تھا۔