مشرق وسطیٰ کشیدگی: پروازوں کی مد میں طالبان انتظامیہ کی آمدن میں اضافہ

جمعرات کو افغانستان کی فضائی حدود سے 191 پروازیں گزریں۔ فضائی کمپنیوں نے ہر پرواز کے لیے افغانستان کی وزارت شہری ہوا بازی کو سات سو ڈالر ادا کیے۔

13  ستمبر، 2021  کی اس تصویر میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کا مسافر طیارہ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ہوائی اڈے پر لینڈ ہوتے دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

طالبان کے زیر انتظام افغان فضائی حدود سے گزرنے والی بین الاقوامی پروازوں کی تعداد اس ہفتے ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہے جس کی وجہ ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے کے بعد پیدا ہونے والے حالات ہیں۔

جمعرات کو افغانستان کی فضائی حدود سے 191 پروازیں گزریں۔ فضائی کمپنیوں نے ہر پرواز کے لیے افغانستان کی وزارت شہری ہوا بازی کو سات سو ڈالر ادا کیے۔

یہ ادائیگیاں مالی مشکلات کا شکار طالبان حکومت کے لیے بڑھتی ہوئی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہیں۔

افغان فضائی حدود 2021 میں نیٹو کے اتحادی حکومت کے خاتمے کے وقت بین الاقوامی پروازوں کے لیے غیر محفوظ قرار دی گئیں، جب مغربی افواج نے کابل سے انخلا کیا اور سخت گیر طالبان نے ملک پر قبضہ کر لیا۔

تاہم یہ پروازیں بتدریج واپس آ رہی ہیں۔ خاص طور پر گذشتہ سال سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے اور بعد ازاں غزہ میں ہونے والی لڑائی کے بعد سے۔

فلائٹ ریڈار 24 کے اعداد و شمار کے مطابق اگست کے دوسرے ہفتے میں افغانستان کی فضائی حدود سے گزرنے والی پروازوں کی تعداد اگست 2023 کے مقابلے میں سات گنا زیادہ تھی۔

اس صورت حال میں اس ہفتے اس وقت تیزی سے اضافہ ہوا جب ایران نے اسرائیل پر تقریباً 200 بیلسٹک میزائل داغے جس کے بعد مزید ایئر لائنز نے ایران کی فضائی حدود گزرتے ہوئے یورپ سے ایشیا کی طرف جانے والا روایتی راستہ چھوڑ دیا۔

فلائٹ ریڈار 24 کے ڈیٹا کے مطابق 19 سے 30 ستمبر کے درمیان روزانہ اوسطاً 147 پروازیں افغان فضائی حدود سے گزریں جس میں وہ پروازیں شامل نہیں جو افغانستان سے فضا میں بلند ہوتی یا وہاں اترتی ہیں۔

ایران کے حملے کے دوران، جو منگل کی صبح شروع ہوا، پروازوں کی تعداد 20 فیصد بڑھ کر 171 تک پہنچ گئی، اور جمعرات کو 191 ہو گئی۔

پروازوں کی یہ تعداد طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان سے گزرنے والی پروازوں کی سب سے زیادہ یومیہ تعداد ہے۔

ان فضائی کمپنیوں میں، جن کی پروازیں دوبارہ افغان فضائی حدود سے گزر رہی ہیں، سوئس ایئر، فن ایئر، سنگاپور ایئر لائنز، برٹش ایئرویز، اور لفتھانسا شامل ہیں۔

فلائٹ ریڈار 24 کے ترجمان ایان پیچینک نے دی انڈپنڈنٹ کو بتایا: ’ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ طیارے جو عام طور پر ایران سے گزرتے تھے، اب افغانستان کی فضائی حدود استعمال کر رہے ہیں۔

’جیسے جیسے (مشرق وسطیٰ میں) فضائی حدود کی مزید پابندیاں لگتی جا رہی ہیں، ایئر لائنز خطرے یا فائدے کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کر رہی ہیں۔

’کیا یہ ایک محفوظ طریقہ ہے؟ اور کیا یہ اس متبادل سے زیادہ محفوظ ہے جو اب ہمیں اپنی پروازیں جاری رکھنے کا موقع دیتا ہے؟‘

ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہے، جو مشرق وسطیٰ کے اوپر ایک مسافر طیارے کے اندر سے لی گئی ہے، جب ایران نے اسرائیل پر اپنے بیلسٹک میزائل داغے۔

’اس ویڈیو میں طیارے کی کھڑکی سے آگ کے بڑے گولے دکھائی دے رہے ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ خطے میں ایئر ٹریفک کنٹرول کے مختلف ٹاورز کو بھی اچانک آنے والی درخواستوں نے حیرت میں ڈال دیا، جب پائلٹوں نے رہنمائی کے لیے فوری مدد طلب کی۔

افغانستان کے امور پر تبصرہ کرنے والے یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز میں انٹرنیشنل سینٹر فار پولیسیگ اینڈ سکیورٹی کے وزٹنگ فیلو اننت مشرا کا کہنا ہے کہ ’مغربی فضائی کمپنیوں کو خاص طور پر پائلٹوں کی طرف سے ہزاروں درخواستیں موصول ہوئیں کہ ایران اور شام کی فضائی حدود سے گریز کیا جائے۔

’اس بات نے فضائی کمپنیوں افغانستان کی فضائی راہداری کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جو نسبتاً کم خطرناک ہے۔‘

اگست 2021 کے بعد افغان فضائی حدود استعمال نہ کرنے کا فیصلہ صرف حفاظتی خدشات کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ یہ سیاسی فیصلہ بھی تھا، جس کا مقصد انہیں بین الاقوامی کرنسی کے حصول کے ذریعے سے محروم کر کے ان پر دباؤ ڈالنا تھا۔

فضائی کمپنیوں کی جانب سے کی جانے والی ادائیگیاں زیادہ نہیں لیکن طالبان کی مجموعی آمدنی بھی بہت زیادہ نہیں ہے۔

عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق اس سال مارچ سے اگست تک افغان حکومت کی کل آمدنی تقریباً 90.6 ارب افغانی (تقریباً 1.3 ارب ڈالر) رہی۔

اگر پروازیں جمعرات کی شرح سے جاری رہیں تو اس سے طالبان کو سالانہ تقریباً پانچ کروڑ ڈالر کی آمدن ہو گی۔

دہلی کی آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے کبیر تنجا کہتے ہیں: ’افغان فضائی حدود کے استعمال کی اجازت نہ دینا دراصل طالبان دباؤ میں رکھنے کا ایک طریقہ تھا تاکہ ایئر لائنز کی جانب سے اوور فلائٹ فیس نہ دے کر یہ پیغام دیا جائے کہ انہیں انہیں مغرب کی جانب سے اٹھائے گئے بہت سے نکات پر واقعی سکیورٹی کی ضمانتیں دینی ہوں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ معاملات مسافر طیاروں کے لیے فوجی خطرے کے خوفناک منظرنامے سے ہمیشہ کم اہمیت رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’لڑائی والے علاقوں میں سول فضائی ٹریفک کے معاملے ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔ اس پر ہمیشہ ایک سوالیہ نشان لگا رہتا ہے۔

’چاہے وہ یوکرین میں گرائے گئے ایم ایچ 17 طیارے کی بات ہو یا ایران میں گرائے گئے بوئنگ 737 کی۔ یہ نئی بات نہیں اوراس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ کے دھندلکے میں شہری ہوا بازی کے حوالے سے معاملات کس طرح بھیانک ہو سکتے ہیں۔

’ہم سمجھتے ہیں کہ افغان فضائی حدود کو اس وقت ایرانی فضائی حدود کے مقابلے میں زیادہ محفوظ سمجھا جا رہا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ تبدیلیاں کب تک برقرار رہیں گی۔؟‘

تنیجا کہتے ہیں کہ 35 ہزار فٹ کی بلندی پر افغان فضائی حدود سے گزرنے والی پروازوں کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں کا ہدف بننے کے امکانات کم ہیں کیونکہ افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کے پاس اس قسم کی صلاحیت نہیں ہے حالانکہ انہیں کچھ بچے کھچے امریکی ہتھیاروں تک رسائی حاصل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) کے مطابق افغانستان میں 32 ہزار یا اس سے زیادہ کی بلندی پر پروازیں ان ہتھیاروں کی پہنچ سے باہر رہتی ہیں، چاہے وہ کسی پہاڑ کی چوٹی سے ہی کیوں نہ چلائے جائیں۔

کرائسس گروپ کے افغانستان کے لیے سینیئر تجزیہ کار گریم سمتھ کا کہنا ہے کہ پروازوں کا افغان فضائی حدود میں واپس آنا علاقے کے کئی روٹوں کے لیے سمجھ میں آتا ہے۔

’اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ایئر لائنز کے لیے، اس سے ان کا کاربن کا اخراج کم ہوتا ہے اور یہ عمل انہیں زیادہ براہ راست راستے فراہم کرکے لاگت کو کم کرتا ہے۔‘

وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کوئی بری بات نہیں ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ ان پروازوں سے حاصل ہونے والی آمدنی عام افغان شہریوں تک پہنچے جنہوں نے طالبان کے قبضے کے بعد اپنے ملک کی معیشت کو زوال پذیر دیکھا ہے۔

گریم سمتھ کے بقول: ’افغان فضائی حدود پر بڑھتا ہوا انحصار طالبان کے کنٹرول والے ملک کے لیے بہت بڑی آمدنی کا ذریعہ کبھی نہیں بنے گا لیکن ہر چھوٹی چیز بنیادی خدمات، مثال کے طور پر صحت اور تعلیم کے مالی مدد فراہم کرتی ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا