پاکستان میں چینی کارکنوں پر بڑھتے حملے ترقیاتی منصوبوں کو متاثر کر سکتے ہیں؟

چین کئی دہائیوں سے پاکستان کی مالی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد فراہم کر رہا ہے لیکن ماہرین کے مطابق اب ان کے شہری خطے میں دہشت گردوں کا اہم ہدف بن گئے ہیں۔

سکیورٹی اہلکار سات اکتوبر، 2024 کو کراچی حملے کے بعد جائے واقعہ کا معائنہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان میں چینی کارکنوں اور ترقیاتی منصوبوں پر تیزی سے حملے ہو رہے ہیں، جس کے بارے میں سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ علیحدگی پسند عسکریت پسند غیر ملکیوں کی شورش زدہ بلوچستان پر گرفت اور مقامی وسائل کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

اتوار کو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ایک بم دھماکے میں دو چینی شہری مارے گئے۔

اس حملے میں، جو پاکستان کے جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے باہر رات 11 بجے کے قریب ہوا، چینی شہریوں کی ایک وین کو نشانہ بنایا گیا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ واقعہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس سے صرف ایک ہفتہ قبل پیش آیا۔

حملے کے کچھ ہی دیر بعد بلوچستان کے علیحدگی پسند عسکریت پسند اور کالعدم گروپ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ’چینی انجینیئروں اور سرمایہ کاروں کے ایک اعلیٰ سطح قافلے‘ کو نشانہ بنانے کے لیے ایک گاڑی میں نصب دیسی ساختہ بم کا استعمال کیا۔

چین کئی دہائیوں سے اپنے ایشیائی اتحادیوں پاکستان اور افغانستان کی مالی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد فراہم کر رہا ہے اور بیجنگ نے ان کے دفاع اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی نمایاں سرمایہ کاری کی ہے۔

تاہم ماہرین نے کہا کہ اب اس کے منصوبے خطے میں درجنوں دہشت گرد گروہوں کے لیے اہم ہدف بن گئے ہیں۔

تجزیہ کار احسان اللہ ٹیپو محسود نے اس بارے میں کہا کہ ’اتوار کی رات ہونے والا حملہ بلوچ علیحدگی پسند عسکریت پسندوں اور پاکستانی طالبان کے دھڑوں کے چینی شہریوں اور پاکستان میں بیجنگ کے مفادات کو نشانہ بنانے والے حملوں کے ایک بڑے پیٹرن کا حصہ ہے۔‘

احسان اللہ محسود نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ 2018 کے بعد سے یہ سب سے بڑا دہشت گردانہ حملہ ہے جس میں پاکستان میں چینی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

نومبر 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے میں چار افراد مارے گئے تھے جب کہ جولائی 2021 میں زیر تعمیر داسو ڈیم کے مقام پر خودکش حملہ جس میں نو چینی شہری جان سے گئے۔

جون 2020 میں پاکستان سٹاک ایکسچینج پر حملہ ہوا اور اپریل 2023 میں بی ایل اے کے خودکش حملوں میں تین چینی ٹیوٹرز مارے گئے تھے۔

اس سال چینی شہریوں پر یہ دوسرا بڑا حملہ ہے۔ اس سے قبل مارچ میں شانگلہ ضلعے میں ایک خودکش کار بم دھماکے میں پانچ چینی کارکن مارے گئے تھے۔

چینی انجیینئرز، جو افغانستان کی سرحد سے متصل صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی جگہ پر کام کر رہے تھے، داسو سے افغانستان کی طرف جا رہے تھے۔

دسمبر 2022 کے حملے میں کابل کے چائنہ ٹاؤن کو نشانہ بنایا گیا اور ایک ہوٹل میں پانچ چینی شہری زخمی ہوئے جہاں بیجنگ کے آئے سرمایہ کار ٹھہرے ہوئے تھے۔

خطے میں عسکریت پسندی پر نظر رکھنے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم ’خراسان ڈائری‘ کے شریک بانی احسان اللہ محسود کے مطابق: ‘بلوچ عسکریت پسندوں کا پروپیگنڈہ بلوچستان میں چینی موجودگی پر زیادہ مرکوز ہے اور وہ اسے اپنے اثر و رسوخ اور وسائل کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

’ان کا خیال ہے کہ چین کی پاکستان کو مالی اور تکنیکی مدد خطے پر ان کی حکومت کی گرفت کو مضبوط کرتی ہے اور ان کی سرگرمیوں اور اثر و رسوخ کو کمزور کرتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ تاثر چینی شہریوں، سرمایہ کاری اور ترقیاتی منصوبوں پر ان کے حملوں کا سبب ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد میں قائم ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز‘ کے ایک سینیئر دفاعی تجزیہ کار اور مینیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان نے کہا: ’یہ محض ایک حملہ نہیں بلکہ چینی شہریوں کی حفاظت میں پاکستان کی جانب سے بڑی سیکورٹی اور انٹیلی جنس کی ناکامی ہے، جن میں سے زیادہ تر انجینیئر بڑے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔‘

عبداللہ خان کے بقول: ’اس سے یہ سنگینی بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ تمام حملے چلتے ہوئے قافلوں اور ان (چینی کارکنوں کو لے جانے والی) گاڑیوں پر کیے گئے ہیں اور اس کا مطلب واضح ہے کہ یہ سکیورٹی کی ناکامی ہے۔‘

کالعدم بی ایل اے پاکستان کے جنوب مغرب میں واقع اور افغانستان اور ایران کی سرحد سے متصل صوبہ بلوچستان کی آزادی چاہتی ہے۔

بی ایل اے خاص طور پر چینی مفادات کو نشانہ بناتی ہے، خاص طور پر بحیرہ عرب کی گوادر کی سٹریٹجک بندرگاہ کو، یہ تنظیم بیجنگ پر الزام لگاتی ہے کہ وہ اسلام آباد کو صوبے کا استحصال کرنے میں مدد کر رہا ہے۔

پاکستان میں سکیورٹی مسائل نے چین کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو متاثر کیا ہے جس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) بھی شامل ہے جو چینی صدر شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے۔

اگست میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کے حملوں کا مقصد ان ترقیاتی منصوبوں کو روکنا ہے جو چین پاکستان اقتصادی راہداری کا حصہ ہیں۔

انہوں نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے کابینہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ’دہشت گرد سی پیک اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کو روکنا اور اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان بھی دراڑ ڈالنا چاہتے ہیں۔‘

لیکن عبداللہ خان کا ماننا ہے کہ ’متوقع شہری نقصانات بھی چین کو اپنے شہریوں کو اس خطے میں بھیجنے سے نہیں روکیں گے۔

’صدر شی نے اپریل 2015 میں اس وقت سی پیک پروجیکٹ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تھا جب یہ ملک بدترین دہشت گردی کا سامنا کر رہا تھا۔‘

ان کے بقول: ’چینی اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ یہ ایک تنازع سے بھرپور خطہ ہے جہاں وہ اپنے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں کیونکہ جب انہوں نے 2015 میں پاکستان میں سی پیک کا آغاز کیا تھا۔

’اس وقت پاکستان کو 2014 میں زبردست دہشت گردی کے حملوں کے ساتھ ملک میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا سامنا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری والے وہ ترقیاتی منصوبے ہیں جنہیں وہ ان چیلنجوں کے باوجود جاری رکھیں گے۔

اسلام آباد شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے کی تیاری کر رہا ہے جو گذشتہ ہفتے مظاہروں اور جھڑپوں کی وجہ سے متاثر ہوا تھا۔

یہاں پولیس اور جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

اگلے ہفتے ہونے والے سربراہی اجلاس میں اعلیٰ سطحی چینی نمائندگی اور ایک دہائی میں کسی بھی انڈین وزیر خارجہ کا پہلا دورہ متوقع ہے، جسے حکام نے محفوظ بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا