کراچی میں چینی باشندوں کا حملہ آور کون تھا؟

بلوچستان لبریشن آرمی نے سات اکتوبر کو میڈیا کو جاری ایک بیان میں کہا کہ خودکش حملہ بی ایل اے مجید برگیڈ کے فدائی شاہ فہد بادینی عرف آفتاب نے کیا۔

سات اکتوبر 2024 کو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کی جانب سے چینی انجینئرز اور سرمایہ کاروں کے ایک اعلیٰ سطحی قافلے کو نشانہ بنانے کے ایک دن بعد، سکیورٹی اہلکار جائے وقوع کا معائنہ کر رہے ہیں (رضوان تبسم/ اے ایف پی)

کراچی ایئرپورٹ کے قریب سگنل پر خودکش دھماکہ کرنے والے شخص سے متعلق اہم تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ تحقیقاتی حکام کی رپورٹ نے بتایا ہے کہ مبینہ خودکش حملہ آور شاہ فہد بادینی نے گذشتہ دسمبر سے اس سال اکتوبر تک چار مرتبہ کراچی کا سفر کیا تھا۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کراچی پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ شہر کے دوروں کے دوران حملہ آور نے صدر، پاسپورٹ آفس اور دیگر مقامات پر قیام کیا۔ تحقیقات کرنے والے حکام کے مطابق واقعہ خودکش تھا اور جس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔

تحقیقات کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ مبینہ حملہ آور نے ہدف کی تفصیلی ریکی بھی کر رکھی تھی۔ فارنزک جانچ کے مطابق: 'دھماکے میں سی فور بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا، جس میں فاسفورس کی مقدار زیادہ رکھی گئی تھی۔

’فاسفورس کی اضافی مقدار کی وجہ سے گاڑیوں اور آس پاس کے علاقوں میں آگ پھیل جاتی ہے۔‘ یہی وجہ ہے کہ دھماکے کے بعد اردگرد گاڑیوں اور دیگر املاک میں آگ لگ گئی۔

کراچی جناح انٹرنیشنل ایئر پور ٹ کے سگنل پر اتوار اور پیر کی درمیانی شب دھماکہ ہوا جس کی آواز کی گونج 20 کلومیٹر تک پھیلی۔ جس پراسرار نوعیت کا یہ دھماکہ تھا اس سے اطراف کی آبادی میں سنسنی پھیل گئی۔

سکیورٹی ادارے اس بات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ حملے کی منصوبہ بندی کہاں سے کی گئی اور شاہ فہد کے دیگر ساتھی کون تھے۔

واقعے کو 40 گھنٹوں سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود جائے وقوع یا کرائم سین بدستور بند رکھا گیا ہے اور تاحال تاہم کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جا سکا۔ حکام کے مطابق تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور مزید اہم پیش رفت کی توقع ہے۔

تحقیقات کے مطابق: 'حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی ڈبل کیبن ویگو تھی، جو شاہ فہد کے نام پر ہی رجسٹرڈ تھی۔ گاڑی کا نمبر KW-0375 تھا اور اسے حملے میں استعمال کیا گیا۔ انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق یہ گاڑی 2012 ماڈل تھی لیکن اس کی رجسٹریشن اگست 2017 میں کروائی گئی اور تمام ٹیکس بھی 31 دسمبر 2024 تک ادا ہوچکے تھے۔

پولیس کے مطابق حملہ آور گاڑی لے کر ماڈل کالونی کی طرف سے ایئرپورٹ روڈ پر آیا اور جیسے ہی غیرملکی شہریوں کا قافلہ آگے بڑھا تو ایئرپورٹ سے شارع فیصل جانے والے روڈ پر حملہ آور نے دائیں جانب سے اسے ہٹ کیا۔ دھماکاخیز مواد گاڑی کے اگلے حصے میں نصب تھا جس سے اس نے چینی انجینئرز کو نشانہ بنایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب 8 اکتوبر کو ایڈیشنل آئی جی نے ایکشن لیتے ہوئے سپیشل برانچ چائنہ ڈیسک کے انچارج کو ہٹا دیا۔ فواد شاہین ایئرپورٹ پر اے ایس یو اینڈ چائنہ ڈیسک سپیشل برانچ کے انچارج تھے۔

غیرملکیوں کے حملے کا نشانہ بننے کی وجہ سے حکام اسے اب ہائی پروفائل واقع کا درجہ دے رہے ہیں۔ اس واقعے کی تحقیقات میں انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے بھی مصروف ہیں۔

کراچی میں چینی شہریوں پر کیے جانے والے حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی نے 7 اکتوبر کو میڈیا کو جاری ایک بیان میں اسے خودکش حملہ ہی قرار دیا۔ اعلامیے کے مطابق: ' کراچی ایئر پورٹ پر خودکش حملہ بی ایل اے مجید برگیڈ کے فدائی شاہ فہد بادینی عرف آفتاب نے سرانجام دیا۔‘

تنظیم نے اس نوجوان کی تفصیل مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ’شاہ فہد بادینی عرف آفتاب ولد میر فضل خان بادینی کا تعلق نوشکی کے علاقے کلی بادینی سے تھا۔‘ اعلامیے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’شاہ فہد 2019 میں بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک ہوا اور اس کی عمر 28 سال تھی۔ شاہ فہد لسبیلہ یونیورسٹی میں بی بی اے کی تعلیم مکمل کرچکے تھا۔‘

بیان میں یہ بھی بتایا گیا کہ خودکش حملہ آور ہونہار و باصلاحیت طالب علم تھا جس نے 2021 میں بی ایل اے مجید برگیڈ کو بطور رضا کار اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ ’شاہ فہد کو تین سال کے انتظار اور تربیت کے بعد ایک سال قبل یہ مشن سونپا گیا۔‘

بی ایل اے نے یہ بھی کہا گیا کہ 'حساس اداروں کو چھ ماہ قبل ہی دہشت گردی کے ممکنہ حملے کا الرٹ جاری کیا تھا، جس میں سی پیک سے وابستہ غیر ملکیوں پر حملے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ اس الرٹ میں بی ایل اے مجید برگیڈ کے حملے کی پیشگی اطلاع دی گئی تھی۔‘

یونیورسٹی سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق : 'حملہ آور نے 2017 میں بی بی اے ایگریکلچر میں داخلہ لیا تھا اور چار سالہ ڈگری مکمل کی۔‘ اس حوالے سے یونیورسٹی طلبا و انتظامیہ تاہم مزید بات کرنے سے خوفزدہ ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ