خیبر پختونخوا: وفاقی حکومت صوبوں کو فنڈز دینے کی پابند کیوں ہے؟

صوبوں کو ملنے والے فنڈز وفاقی حکومت اپنے حصے میں سے دیتی ہے یا یہ واقعتاً صوبوں ہی سے آتے ہیں اور ان کا آئینی حق ہیں؟

28 فروری 2024 کو پشاور میں نو منتخب ارکان کی حلف برداری کی تقریب کے دوران خیبر پختونخوا اسمبلی کی عمارت کے باہر لوگ جمع ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

خیبر پختونخوا حکومت نے 25 مئی کو آئندہ مالی سال کے لیے ایک کھرب 17 ارب روپے کا بجٹ صوبائی اسمبلی میں پیش کیا، جس میں 1200 ارب روپے کے وفاقی محصولات بھی شامل ہیں، جب کہ صوبے کی براہ راست آمدن کا حجم 93 ارب روپے سے زیادہ دکھایا گیا ہے۔

وفاق سے ملنے والے 1200 ارب روپے کے محصولات یا فنڈز میں صوبائی حکومت کو ٹیکسز کی مد میں ملنے والے 902 ارب روپے شامل ہیں، جب کہ فیڈرل ڈویزیبل پول (قابل تقسیم وفاقی پول) کے ٹیکسز کی مد میں 108 ارب روپے ملنے کی توقع ہے۔

اسی طرح وِنڈ فال لیوی کی مد میں وفاق سے 46 ارب روپے سے زیادہ جب کہ بجلی کے خالص منافع کی مد میں آئندہ مالی سال کے دوران 33 ارب روپے ملنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ بجلی کے خالص منافع میں 78 ارب روپے کے بقایاجات بھی شامل ہیں۔ 

خیبر پختونخوا کے مجموعی طور پر 1700 ارب روپے کے بجٹ میں سے 70 فیصد سے زیادہ بجٹری فنڈز وفاقی حکومت سے ملنے کی توقع کی گئی ہے، جب کہ قبائلی اضلاع کو وفاقی حکومت سے ملنے والی رقم اس سب سے الگ ہے۔

 اس کے علاوہ صوبائی وزیر خزانہ آفتاب عالم کی بجٹ تقریر کے مطابق اے جی این قاضی فارمولے کے تحت 30 جون2024  تک 1800 ارب روپے سے زیادہ کے بقایاجات وفاق کے ذمہ واجب الادا ہیں۔ 

سوشل میڈیا پر اب یہی بحث چھڑی ہوئی ہے کہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت باتیں تو بہت کرتی ہے لیکن بجٹ میں 70 فیصد حصہ وفاق سے ملنے والے فنڈز پر مشتمل ہے اور اسی پر صوبائی حکومت کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اسے وفاق سے محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہیے۔ 

ان سطور میں بتانے کی کوشش کریں گے کہ وفاق کی جانب سے صوبوں کو ملنے والے فنڈز وفاقی حکومت اپنے حصے میں سے دیتی ہے یا یہ واقعتاً صوبوں ہی سے آتے ہیں اور ان کا آئینی حق ہیں۔

وفاق صوبوں کو فنڈ کیوں دیتا ہے؟

پاکستان میں ہر ایک صوبہ جب بجٹ پیش کرتا ہے تو اس میں ایک بڑا حصہ وفاق سے ملتا ہے اور اسی پر صوبوں کے اخراجات پورے ہوتے ہیں لیکن شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ فنڈز وفاق اپنی ذاتی آمدنی سے نہیں دیتا۔ 

ٹیکسوں کی مد میں صوبائی محصولات

پاکستان میں صوبوں میں ٹیکسز جمع کرنے کا نظام وفاقی حکومت کے پاس ہے جب کہ صوبے بہت کم چیزوں پر خود ٹیکس لگا سکتے ہیں۔ 

ٹیکسز کی مد میں وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو ایک خاص حصہ دیا جاتا ہے اور یہ حصہ صوبوں کا وہ حصہ ہوتا ہے جو صوبے میں موجود ٹیکس دہندگان وفاقی حکومت کے پاس جمع کرتے ہیں، جس میں جنرل سیلز ٹیکس جیسے ٹیکسز بھی شامل ہیں۔ 

آئین کے شق 160  کے تحت نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کے ذریعے 2010 میں ایک صدارتی آرڈیننس(ڈسٹری بیوشن آف ریونیو اینڈ گرانٹ ان ایڈ آرڈر 2010) کے تحت صوبوں میں ٹیکس کی آمدن کا طریقہ کار وضع کیا گیا، جسے فیڈرل ڈیویزبل پول کہا جاتا ہے، جو ایک قسم کا خزانہ ہے، جس میں صوبوں سے اکٹھے ہونےوالے ٹیکسوں کو جمع کیا جاتا اور ہر صوبے کو اس کا حصہ دیا جاتا ہے۔ 

اسی آرڈیننس کے آرٹیکل تین کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو سیلز ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، انکم ٹیکس، ایکسائز ڈیوٹی، سمیت جنرل سیلز ٹیکس صوبوں سے جمع کرے گا اور اپنے اخراجات منہا کر کے باقی ڈویزیبل پول میں ڈالے گا جو بعدازاں صوبوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ 

خام تیل پر رائلٹی

وفاقی حکومت صوبوں میں موجود تیل کے کنوؤں کی رائلٹی بھی صوبوں کو دینے کا پابند ہے۔ 2010 کے صدارتی آرڈیننس کی شق پانچ کے مطابق وفاقی وزارت پیٹرولیم رائلٹی اکٹھی کر کے صوبوں میں تقسیم کرنے کی پابند ہو گی۔

گیس اور تیل کی مد میں وفاقی حکومت ڈیویلپمنٹ سرچارج اور قدرتی گیس پر ایکسائز ڈیوٹی بھی اکھٹا کرتی ہے جنہیں قانوناً وفاقی اکائیوں میں ہی تقسیم ہونا ہوتا ہے۔

اے جی این قاضی فارمولہ اور بجلی کا خالص منافع

نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے علاوہ وفاقی حکومت بجلی پیدا کرنے والے صوبوں خالص منافع کی مد میں اے جی این قاضی فارمولے کے تحت فنڈز مہیا کرتی ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بجٹ دستاویزات کے مطابق اے جی این قاضی فارمولے کے تحت بجلی کے خالص منافع کی مد میں بقایاجات  کا حجم 30 جون 2024 تک 1800 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔

وفاقی حکومت اے جی این قاضی فارمولے کے تحت صوبے کو بجلی کی خالص منافع کی مد میں سالانہ منافع دینے کے پابند ہے۔ یہ فارمولہ 1986 میں بجلی کے خالص منافع کی صوبے کو ادائیگی کی غرض سے بنایا گیا تھا، جس کے تحت بجلی کمپنیاں اس صوبے کو منافع ادا کرنے کے پابند ہو گا جہاں پاور سٹیشنز موجود ہیں۔

فارمولے کے تحت منافع سے بجلی کی سپلائی اور ٹرانسیمنش کا خرچہ نکال کر ایک خاص حصہ  فی یونٹ کے حساب سے صوبے کو دیا جائے گا۔ 

اسی فارمولے کے تحت 1991 میں فی یونٹ 0.21 روپے مقرر کی گئی تھی اور خیبر پختونخوا کو بجلی کے خالص منافع کی مد میں سالانہ چھ ارب روپے ملتے تھے لیکن بعد میں صوبائی حکومتوں کے مطابق وفاقی حکومت نے ٹال مٹول سے کام لینا شروع کر دیا تھا۔

خیبر پختونخوا حکومت نے کئی مرتبہ یہ مسئلہ وفاقی حکومت کے ساتھ اٹھایا لیکن اسلام آباد خیبر پختونخوا حکومت کی مطالبے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 

سلیم محمد معاشی تجزیہ کار ہیں محقق ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وفاقی حکومت صوبوں کو فنڈز دے کر صوبوں پر کوئی احسان نہیں کرتی بلکہ یہ صوبوں کے اپنے پیسے ہیں جو وفاقی ادارے اکھٹا کرتے ہیں۔ 

انہوں نے بتایا، ’صوبوں کا زیادہ تر ریوینیو وفاقی فنڈ پر ہے۔ یہ وہی پیسے ہیں جو صوبوں کے عوام وفاق کو ٹیکسز کی مد میں ادا کرتے ہیں اور پھر وفاقی حکومت یہ پیسے صوبوں کو دیتے ہیں۔‘ 

سلیم محمد نے بتایا کہ اس میں فیڈرل ڈیویزبل پول کے ٹیکسز شامل ہیں اور ساتھ میں خیبر پختونخوا کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں بھی فیڈرل ڈیویزبل پول کا ایک فیصد حصہ ملتا ہے۔ 

سلیم محمد کے مطابق، ’صوبوں یا خیبر پختونخوا پر اگر تنقید بنتی ہے تو اس پر نہیں کہ پیسے وفاق سے ملتے ہیں بلکہ اس پر ہونا چاہیے کہ صوبے کو روزگار کے مواقع سمیت کاروبار وغیرہ کے مواقع ملنا چاہیے اور اسی سے صوبے ٹیکسز جمع کریں گے جس سے معیشت مضبوب ہو گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت