مشرق وسطیٰ میں آگے کیا ہونے والا ہے؟

امریکہ کے سابق سلامتی مشیر جان بولٹن کی خصوصی تحریر جس میں وہ مشرقِ وسطیٰ کے مستقبل کے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔

اسرائیل کی ہوم فرنٹ کمانڈ اور پولیس فورسز کے اراکین یکم اکتوبر 2024 کو اسرائیل کے جنوبی شہر گیڈرا میں ایران کی جانب سے فائر کیے گئے میزائلوں کے نتیجے میں ایک تباہ شدہ سکول کی عمارت کے قریب بننے والے گڑھے کا معائنہ کر رہے ہیں (اے ایف پی)

حماس کی جانب سے اسرائیلی شہریوں پر حملے کے ساتھ ایران کی ’رِنگ آف فائر‘ حکمت عملی کا آغاز ہوئے ایک سال گزر چکا ہے اور مشرق وسطیٰ میں کافی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔

اب دنیا انتظار کر رہی ہے کہ اسرائیل ایران کے گذشتہ ہفتے کے بیلسٹک میزائل حملے کے جواب میں کیا قدم اٹھائے گا، جو اسرائیل پر اب تک اپنی نوعیت کا سب سے بڑا حملہ تھا۔

یہ موجودہ جنگ کا دوسرا حملہ تھا جو براہ راست ایرانی علاقے سے اسرائیل پر کیا گیا، پہلا حملہ اپریل میں ڈرون اور بیلسٹک/کروز میزائلوں کا مشترکہ حملہ تھا۔ ہمیں معلوم نہیں کہ وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کیسے جواب دیں گے، لیکن یہ تقریباً یقینی ہے کہ اسرائیل کا ردعمل اپریل سے زیادہ شدید ہو گا۔

دوسری جانب ایران کی ’رنگ آف فائر‘ حکمت عملی واضح طور پر ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اسرائیل ایران کی طاقت کے دو اہم ستونوں حماس اور حزب اللہ کو منظم طریقے سے تباہ کر رہا ہے۔

اسرائیل کے مطابق، حماس کی 24 میں سے 23 جنگی بٹالینز تباہ ہو چکی ہیں اور جو باقی ہیں وہ بھی حملوں کی زد میں ہیں۔ متعدد حماس رہنما جان سے جا چکے ہیں، جن میں سے ایک اسماعیل ہنیہ بھی تھے جو تہران کے قلب میں ایک محفوظ کمپاؤنڈ میں قتل کر دیے گئے۔

یحییٰ سنوار ابھی بھی انڈر گراؤنڈ ہیں، حماس کے پاس اب بھی اسرائیلی شہری قید ہیں اور غزہ کا وسیع زیر زمین قلعہ اب بھی جزوی طور پر حماس کے کنٹرول میں ہے، لیکن انجام روزبروز واضح ہوتا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حزب اللہ ابھی بھی تباہ ہونے کے عمل میں ہے۔ اسرائیل کے حسن نصراللہ کے قتل نے مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں ایک نیا موڑ دیا ہے، لبنان اور اس سے آگے تک زبردست صدمہ پھیل گیا ہے۔

حماس کی طرح یا شاید اس سے بھی زیادہ موثر طریقے سے، اسرائیل حزب اللہ کی قیادت کو بےرحمی سے ختم کر رہا ہے، حتیٰ کہ جیسے ہی عہدیداروں کو ان کے مرنے والے ساتھیوں کی جگہ پر ترقی دی جاتی ہے، انہیں بھی ختم کر دیا جاتا ہے۔

اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے حزب اللہ کے میزائلوں اور لانچرز کے بڑے ذخیرے کا نصف تباہ کر دیا ہے۔ یہ تخمینہ مبالغہ آمیز لگتا ہے اور بہر حال، حزب اللہ کے اندازاً ڈیڑھ لاکھ میزائلوں کے ذخیرے کے پیش نظر ابھی کافی کام باقی ہے۔ پھر بھی، نصراللہ کے زوال اور قیادت کی تباہی کے بعد، حزب اللہ کمزور ہو چکی ہے۔

خلیجی عرب ریاستوں اور دوسروں کو اب غور کرنا چاہیے کہ لبنان اور غزہ کے عوام کے لیے حزب اللہ اور حماس کے بغیر مستقبل کیا ہو گا۔ جو بات دہائیوں تک ناقابل تصور تھی وہ اب ممکنہ طور پر قریب نظر آ رہی ہے۔ جب تک  حزب اللہ لبنان اور اس کی حکومت پر قابض رہی، سیاسی آزادی اور استحکام حاصل کرنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔

حزب اللہ کے ایک سیاسی اور فوجی قوت کے طور پر خاتمے کے امکان کے پیش نظر، ایران کی طرف سے خوفزدہ کیے بغیر ایک معاشرے کے امکان پر فوری توجہ دی جانی چاہیے۔ حزب اللہ کے بغیر لبنان ایک بہت مختلف جگہ ہو سکتا ہے اور ہونا چاہیے۔

غزہ اگرچہ چھوٹا ہے، مگر زیادہ پیچیدہ ہے۔ فلسطینی واحد بڑی مہاجر آبادی ہیں جنہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد واپس اپنے وطن جانے یا دوبارہ آباد ہونے کا موقع نہیں ملا۔ بین الاقوامی برادری کو اس حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے کہ غزہ کبھی بھی قابل عمل اقتصادی وحدت نہیں بنے گا، چاہے کبھی مستقبل میں اسے مغربی کنارے کے ’جزائر‘ کے ساتھ ریاست کے طور پر جوڑا جائے۔

بہتر ہو گا کہ حماس کے خاتمے کے بعد غزہ کے عوام کے ساتھ زیادہ انسانی سلوک کیا جائے۔ غزہ کو دوبارہ ایک کثیر المنزلہ مہاجر کیمپ کے طور پر تعمیر کرنا بے معنی ہوگا۔ بے گناہ غزہ کے لوگوں کے لیے سب سے انسانی مستقبل یہ ہوگا کہ انہیں ایسے ملکوں میں آباد کیا جائے جہاں ان کے بچوں کو ایک معمول کے مستقبل کا امکان ہو۔

اگرچہ غزہ اور لبنان کے پاس کچھ امید ہے، لیکن بدقسمتی سے یمن، شام اور عراق کے لیے ابھی ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ یمن کے حوثی اور ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا شام اور عراق میں سات اکتوبر کے بعد سے بڑی حد تک غیر متاثر رہی ہیں۔ اس میں تبدیلی آنی چاہیے۔

اگرچہ حوثیوں نے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کیے ہیں اور اسرائیل نے اس کا جواب دیا ہے، حوثیوں کی ایران کی ’رنگ آف فائر‘ میں اہم شراکت بحیرہ احمر کے بحری راستے کو مؤثر طریقے سے بند کرنا رہا ہے۔ اس ناکہ بندی نے مصر کو سوئز کینال کی گزرگاہ سے ہونے والی آمدنی سے محروم کیا ہے اور دنیا بھر میں جہاز رانی کے اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ بحری آزادی کے اصول کی واضح خلاف ورزی کے پیش نظر، بڑی بحری طاقتیں اسے طاقت کے ذریعے درست کرنے کا پورا جواز رکھتی ہیں، چاہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے ساتھ ہو یا نہ ہو۔

امریکہ کے لیے، بحری آزادی ایک اہم قومی سلامتی کا عنصر رہی ہے، یہاں تک کہ جب 13 کالونیاں آزاد نہیں ہوئی تھیں۔ گذشتہ دو صدیوں میں، امریکہ اور برطانیہ نے بحری آزادی کے دفاع کے لیے عالمی سطح پر قیادت کی اور اب انہیں حوثی دہشت گردی کو ختم کر کے ایسا ہی کرنا چاہیے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

اس کالم کے مصنف جان بولٹن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے سلامتی امور کے مشیر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے یہ تحریر خاص طور پر انڈپینڈنٹ عربیہ کے لیے لکھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر