دکی حملہ: بچ جانے والے کان کن نے کیا دیکھا؟

دکی حملے میں بچ جانے والے عینی شاہد عبدالرشید نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والے اوپر کی منزل سے لوگوں کو نشانہ بنا رہے تھے لیکن میں ایک کمرے میں چھپ جانے کی وجہ سے محفوظ رہا۔

بلوچستان پولیس کے مطابق ضلع دکی میں نامعلوم افراد نے جمعرات کی رات فائرنگ کر کے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے 20 افراد کو قتل کر دیا جبکہ سات زخمی ہیں۔

اس واقعے کے عینی شاہد عبدالرشید نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس واقعے کے وقت میں وہیں تھا لیکن میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ بس فائرنگ چل رہی تھی، رہائشی کمروں کے اوپر سے فائرنگ ہو رہی تھی۔

 ان کے مطابق: ’فائرنگ کرنے والے لوگوں کو مار رہے تھے پھر وہی سے اوپر کی طرف چلے گئے۔ دوسرے مزدوروں کو بھی مارا کچھ زخمی ہوئے اور کافی سارے شہید ہو گئے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارے کمرے کے زخمی اور شہدا ہم نے خود اکٹھے کیے کوئی دوسرا نہیں فرد نہیں تھا۔ صرف ٹھیکیدار آیا اور ساتھ میں دوگاڑیاں لے کر آیا تھا انہیں گاڑیوں میں مزدوروں کو ہسپتال لے جایا گیا جبکہ باقی ماندہ افراد کے لیے بھی عام افراد جمع ہوئے اور ہسپتال تک لے کر گئے۔‘

عبدالرشید کے مطابق: ’ہم اپنے کمرے کے سامنے سوئے ہوئے تھے کہ فائرنگ شروع ہو گئی۔ کوئی بھاگ رہا تھا اور کسی کو گولی لگ گئی۔‘

انہوں نے بتایا کہ: ’میں بھاگا اور کمرے کے اندر چھپ گیا۔ بس اسی وجہ سے بچ گیا۔‘

ان کے مطابق: ’باقی کان کن کمروں تک نہیں پہنچ سکے۔ زیادہ تر کو گولی لگ گئی اور جو اوپر کے کمروں میں سوئے ہوئے تھے ان کو گولی ماردی گئی۔

’یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ گولی کس طرف سے چل رہی ہے کون مار رہا ہے بس ہر طرف سے فائرنگ ہو رہی تھی کوئی بچ نہیں سکتا تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں ایک دن کی مزدوری 1300، 1400 روپے ملتی تھی جس سے گزارا ہو جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق: ’یہ جتنے بھی افراد مارے گئے ہیں ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’کوئی آس پاس کے علاقوں سے تھا تو کوئی افغانستان سے تھا۔ ہم سب ایک دوسرے کو جانتے تھے مارے جانے والے افراد میں افغانستان کے صوبہ قندھار کے افراد بھی شامل ہیں۔‘

جبکہ ایک اور عینی شاہد نعمت اللہ نے بتایا کہ ’بہت ساری آوازیں تھیں، کلاشنکوف کی بھی تھیں، ٹو ٹو تھری کی بھی تھیں، راکٹ لانچر کی آوازیں تھیں اور گرینیڈ کی بھی تھیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’میرے جاننے والے دو بندے تھے یہاں کوئلے کی کان پر کام کرتے تھے، ان میں سے ایک کو گولیوں سے مار دیا، دوسرا ادھر سویا ہوا تھا جسے گرینیڈ سے مار دیا۔

’حملہ کرنے والوں نے آگ لگا دی تھی جس سے ہمارا کافی نقصان ہوا ہے اور 40 سے 50 لاکھ مالیت کے ہمارے انجن جل گئے۔‘

بلوچستان کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں پر اس سے قبل بھی حملوں کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

اس سے قبل جنوری 2021 میں بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں 10 افراد کو اس وقت اغوا کرلیا گیا تھا، جب وہ سو رہے تھے، بعدازاں ان کی شناخت کے بعد انہیں ’بے دردی‘ سے قتل کر دیا گیا۔

 اس واقعے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی اور جان سے جانے والوں کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان