لاہور سکول احتجاج، لڑکی سے ریپ کے کوئی شواہد نہیں ملے: لاہور پولیس

پنجاب پولیس کے ترجمان نے منگل کو جاری بیان میں کہا کہ مبینہ واقعے کے حوالے سے اگر کسی شہری کے پاس کوئی بھی معلومات ہیں تو ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن کو مطلع کریں۔

پنجاب پولیس کی جانب سے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس (اے ایس پی) ڈیفنس سیدہ شہربانو نقوی نے 14 اکتوبر کو ویڈیو بیان میں کہا کہ مبینہ ریپ کے واقعے کی وجہ ڈس انفارمیشن تھی (پنجاب پولیس ایکس)

لاہور کے ایک نجی کالج میں لڑکی کے مبینہ ریپ کے حوالے سے پنجاب پولیس کا منگل کو کہنا ہے کہ اب تک واقعے کے کوئی شواہد نہیں ملے جبکہ مزید تفتیش جاری ہے۔

چند روز قبل سوشل میڈیا پر نجی کالج کی طالبہ سے کالج کے سکیورٹی گارڈ کی مبینہ زیادتی کی خبر وائرل ہوئی، جس کے بعد پولیس نے اپنی کارروائی شروع کی۔ تاہم کالج کے طالب علموں نے پیر کو کالج کے باہر احتجاج کیا اور کالج کے سکیورٹی کے عملے سے مڈ بھیڑ میں کچھ طالب علم زخمی بھی ہوئے۔

اسی حوالے سے پنجاب پولیس کی جانب سے پیر کو اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس (اے ایس پی) ڈیفنس سیدہ شہربانو نقوی کا ایک ویڈیو بیان مختلف چینلز پر چلایا گیا جبکہ پنجاب پولیس نے بھی شہر بانو نقوی کا ایک بیان اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر چلایا ہے۔

اس بیان میں اے ایس پی شہربانو نقوی کا کہنا ہے: ’لاہور میں افسوسناک صورت حال سامنے آئی جس کی وجہ ڈس انفارمیشن تھی۔ ہمیں یہ سننے کو ملا کہ ایک نجی کالج کی طالبہ جس کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی گئی انہیں نجی ہسپتال میں لے جایا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم جس سرکاری ہسپتال میں موجود ہیں ہم نے نہ صرف اس ہسپتال کا ریکارڈ چیک کیا بلکہ اس نجی ہسپتال کا ریکارڈ بھی چیک کیا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ زیادتی کا شکار کسی بھی لڑکی کو اس ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔‘

انہوں نے بیان میں کہا کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ جس نجی ہسپتال کا نام لیا جا رہا ہے وہاں میڈیکولیگل کیسسز ڈیل ہی نہیں کیے جاتے بلکہ اس ہسپتال کی ایمرجنسی میں بھی ایسا کیس ڈیل نہیں کیا گیا۔ اس ہسپتال کی تمام منازل کو چیک کرنے کے بعد بات سامنے آئی ہے کہ مبینہ متاثرہ بچی اس نجی ہسپتال میں نہیں گئی۔‘

اسی طرح انہوں نے ایک اور ویڈیو بیان میں کہا کہ ’کسی کے پاس زیادتی کا ثبوت ہے تو سامنے لائیں انہوں نے اپیل کی کہ عوام غلط خبر پر کسی کے ساتھ زیادتی نہ کریں۔‘

پنجاب پولیس کے ترجمان نے منگل کو جاری بیان میں کہا کہ مبینہ واقعے کے حوالے سے اگر کسی شہری کے پاس کوئی بھی معلومات ہیں تو ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن کو مطلع کریں۔

ترجمان کے مطابق: ’شہری 15 پر کال یا ویمن سیفٹی ایپ کے ذریعے ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔‘

دوسری جانب ڈی آئی جی آپریشنز لاہور فیصل کامران نے بھی پیر کو ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ ’جس لڑکی سے مبینہ زیادتی ہوئی ہے اس لڑکی یا اس کے گھر والوں کا اب تک کوئی سراغ نہیں ملا نہ ہی اب تک کوئی شواہد ملے جبکہ کالج کی تمام سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پولیس کے پاس ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود جس سکیورٹی گارڈ پر الزام لگایا گیا ہے اسے پولیس حراست میں لے چکی ہے اور مزید تحقیق جاری ہے۔

ان کا ایک اور ویڈیو بیان بھی سامنے آیا جس میں وہ ایک نامزد متاثرہ لڑکی کے والد اور چچا کے ہمراہ کھڑی ہیں ان کا کہنا تھا کہ جس لڑکی کو متاثرہ لڑکی کہا جا رہا ہے وہ متاثرہ لڑکی نہیں ہیں۔

جبکہ اسی لڑکی کے والد نے بیان دیا کہ ان کی بیٹی سے کوئی ریپ کا واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ وہ گھر میں پھسل گئی تھیں اور ہسپتال میں زیر علاج ہے اس کی میڈیکل رپورٹس پولیس کو فراہم کر دی گئی ہیں۔

اعلیٰ سطحی کمیٹی

دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس کیس کی مزید تحقیق کے لیے ایک سات رکنی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

صوبے کے چیف سیکریٹری اس اعلیٰ سطحی کمیٹی کے کنوینیئر مقرر کیے گئے ہیں جبکہ ان کے علاوہ اس کمیٹی میں سیکریٹری ہوم، ہائیر ایجوکیشن، ہیلتھ، سپیشل ایجوکیشن اور دیگر عہدےداران  کمیٹی کے رکن ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تحقیقاتی کمیٹی ریپ کیس کے شواہد اور فریقین کے بیانات قلم بند کرے گی اور ساتھ ہی واقعے کے بارے میں پولیس کارروائی اور کالج انتظامیہ ریسپانس کا بھی جائزہ لے گی اور 48 گھنٹوں میں اپنی رپورٹ مرتب کر کے وزیر اعلیٰ کو بھجوائے گی۔

طلبہ کا احتجاج جاری

کمیٹی کی تشکیل کے باوجود نجی کالج اور دیگر کالجز کے طلبہ و طالبات نے منگل کو بھی احتجاج کیا اور پنجاب اسمبلی کے باہر چیئرنگ کراس پر دھرنا دے دیا۔

پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی طلبہ سراپا احتجاج رہے جبکہ ملتان کے بوسن روڈ پر طلبہ نے کالج کی عمارت کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا جس پر کچھ طالب علموں کو پولیس نے حراست میں بھی لیا۔

لاہور کے نجی کالج کے ڈائریکٹرآغا طاہر اعجاز نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنا ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ کالج انتظامیہ نے نہ صرف اس دن جس دن کا یہ واقعہ رپورٹ کیا جارہا ہے بلکہ اس سے پہلے سات دن کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پولیس کے حوالے کر دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کالج انتظامیہ نے اس روز کالج سے غیر حاضر تمام طالبات کے گھروں میں فون کیے لیکن وہ سب طالبات اپنی کسی نجی وجوہات کی بنیاد پر کالج سے غیر حاضر تھیں جبکہ جن جن بچیوں کے نام اس کیس میں لیے جارہے ہیں ان کے گھروں میں بھی فون کر کے چیک کیا وہاں بھی کسی قسم کی پریشانی سامنے نہیں آئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کالج انتظامیہ نے سوشل میڈیا پر خبر سامنے آنے کے بعد تمام ہسپتال یہاں تک کہ مختلف تھاںے بجی چیک کیے لیکن کہیں کوئی ایسا کیس رپورٹ نہیں ہوا تھا۔

انہوں نے طالب علموں سے کہا کہ کالج انتظامیہ نے انہیں احتجاج کا حق دیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر چلنے والی خبر کے حوالے سے اب تک کوئی تصدیق نہیں ہوئی نہ کوئی شواہد سامنے آئے ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں معاملہ زیر بحث

نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ ریپ کے معاملے پر پنجاب اسمبلی میں بھی ہنگامہ آرائی ہوئی جس میں حکومتی بینچز اور حزب اختلاف کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے پنجاب اسمبلی کی ایوان میں کہا کہ ’یہ لوگ اب بچیوں سے زیادتی کے الزامات لگا رہے ہیں بچیوں پر رحم کریں ان کو اپنی سیاست کا نشانہ نہ بنائیں۔‘

عظمیٰ بخاری کی تقریر کے دوران ایوان میں شور شرابا مچ گیا جبکہ حزب اختلاف کے رکن کرنل ریٹائڑد شعیب کے ساتھ تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا اس دوران ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی حزب اختلاف کے رکن کو خاموش کرواتے رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان