’کولیٹرل ڈیمیج‘ اور ’تحمل‘ دو ایسے الفاظ ہیں جو فوجی کمانڈر اور سیاسی عہدے دار جنگوں اور کشیدگی والے حالات میں بکثرت استعمال کرتے ہیں تاکہ عسکری طریقوں اور جانی نقصانات کا جواز بنایا جا سکے یا ایسے نقصانات اور خطرات کو ختم کرنے اور پرامن اور سفارتی ذرائع سے تنازعات کو حل کرنے کا دروازہ کھلا رکھا جا سکے۔
تاہم گذشتہ ایک سال کے دوران مشرق وسطیٰ میں ہونے والے واقعات اور اسرائیل اور امریکہ کے اقدامات نے ایسے فقروں کے معنی کو کھوکھلا کر کے جنگ کے تمام اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا دروازہ کھول دیا ہے۔
انہوں نے سیاسی اور سفارتی منطقی پیشکش کو رد کیا اور ریاستوں کی خودمختاری اور ان کی سرحدوں کے احترام کے اصول کی مکمل خلاف ورزی کی۔
اسرائیل کے پاس اپنی سرحدوں کے پار اور دوسرے ممالک کی خودمختاری کا احترام کیے بغیر سیاسی رہنماؤں کو قتل کرنے اور عام شہریوں خصوصاً فلسطینیوں اور عربوں کو قتل کرنے کا منفرد ریکارڈ ہے۔
اس کالم کی سطریں بہت سے معاملات کو اجاگر کرنے یا ان کی بدصورتی کو بیان کرنے کے لیے کافی نہیں۔
ان تمام کارروائیوں میں مشترکہ عنصر اسرائیل کا بیانیہ ہے کہ ’ہدف ایک دہشت گرد‘ تھے اور اس کے ساتھ شہریوں کا جانی نقصان صرف ’کولیٹرل ڈیمیج‘ تھا۔
ہم نے یہ سب 1982 میں لبنان کے صبرا اور شاتیلا میں بھی دیکھا، جب ہزاروں فلسطینی شہری مارے گئے اور اب 2024 کے دوران بھی یہی کچھ ہو رہا ہے جب غزہ میں 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے گئے۔
حالیہ تنازعے میں امریکہ وہ ملک ہے جس نے ’تحمل‘ لفظ سب سے زیادہ استعمال کیا اور اگرچہ میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہوں کہ مبالغہ آرائی نہ کی جائے یا کوئی بھی بیانیہ قائم کرنے میں جلد بازی نہ کی جائے لیکن اب مجھے یقین ہو چلا ہے کہ اس لفظ کو استعمال کرنے کا مقصد وہ نہیں جو امریکہ چاہتا ہے۔
اس کا مقصد چیزوں کو ہاتھ سے نکلنے اور نقصانات کو بڑھنے سے روکنا نہیں بلکہ اس کا مقصد اسرائیل کا تحفظ کرنا اور نتن یاہو کو فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ کے دیگر پڑوسیوں کے خلاف تمام میدانوں میں اپنی من مانیوں کے لیے مزید وقت اور مواقع فراہم کرنا بھی ہے۔
مجھے یاد ہے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر بمباری اور دارالحکومت تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد بھی علاقائی ریاستوں کے ذریعے سوئٹزر لینڈ ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے ان اسرائیلی کارروائیوں کے بعد ایران سے تحمل سے کام لینے پر زور دیا تھا۔
جس چیز کا میں نے سب سے زیادہ ذکر کیا اور جو چیز مجھے امریکی موقف کے حوالے سے مضحکہ خیز اور اعتبار کے فقدان کے بارے میں واقعی حیران کن لگی وہ یہ کہ واشنگٹن تل ابیب پر دباؤ ڈالنے کی بجائے ان فریقوں کے ساتھ تحمل کا مظاہرہ کرنے میں زیادہ پرجوش اور سرگرم تھا جن پر اسرائیل نے حملہ کیا تھا۔
ان تمام باتوں کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ یا تو اسرائیل کو اس کی فوجی کارروائیوں کو آزادانہ اجازت دیتا ہے یا یہ محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل اس کی باتوں پر کان نہیں دھرتا۔
اس کے باوجود بھی امریکہ اسرائیلی کارروائیوں میں ملوث ہے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ امریکہ اسرائیل کو تباہ کن ہتھیار، گولہ بارود اور انٹیلی جنس معلومات فراہم کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب اس پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ایک ہی عمل کو نہ دہرایا جائے یعنی اسرائیل کو اپنے حملے بند کرنے، تشدد اور جوابی تشدد کے سلسلے کو منقطع کر کے آگے بڑھنا چاہیے۔
مزید یہ کہ تنازعات کے حل کے لیے سنجیدہ سفارتی کام کیا جائے تاکہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔
میں نے خاص طور پر ’کولیٹرل ڈیمیج‘ کے مسئلے کے لیے بار بار نظر انداز کیے جانے کا حوالہ دیا، اس کے اثرات کی سنگینی کی وجہ سے جو ہم ابھی دیکھ رہے ہیں، شہریوں کو نشانہ بنانا یا شہری اموات کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا واضح طور پر قابل قبول عمل بنتا جا رہا ہے، اگر ایسے ہی چلتا رہا تو تمام فریق اس کا سہارا لیں گے، جس سے مزید عام شہری نشانہ بنیں گے اور شہر میدان جنگ بن کرتباہی کا شکار ہو جائیں گے۔
اگر یہ سب کچھ اسی طرح جاری رہا تو اس سے علاقائی فریق بھی اپنی سنجیدہ سفارتی کوششوں کو محدود کر دیں گے اور کچھ رسمی باتوں سے مطمئن ہو جائیں گے۔
میں ہمیشہ خود کو عرب اسرائیل امن کے حامیوں میں شمار کرتا ہوں، سلامتی کونسل کی قراردادوں 242 اور 338 کے مطابق عرب سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو ختم کرنے، فلسطینی ریاست کے قیام اور تمام ممالک کے لیے سلامتی اور امن کے حصول کی بنیاد پر اسرائیل سمیت خطے میں سیاسی اور سفارتی عمل کو ترجیح دیتا ہوں۔
لیکن جو کچھ ہم اب دیکھ رہے ہیں اس سے کشیدگی اور جنگ کی نوعیت کا مکمل طور پر تبدیل ہونے کا امکان ہے کیونکہ یہ اسرائیل کو امریکی سیاسی تحفظ کے تحت پورے مشرق وسطیٰ میں کسی بھی مقام اور اہداف کے خلاف کارروائی کرنے اور نشانہ بنانے کی آزادی دیتا ہے اور یہ اس فوج کو بھی کسی جوابدہی سے محفوظ رکھتا ہے۔
اس جنگ میں ٹیکنالوجی نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے جس کی تازہ ترین مثال شہری علاقوں میں موبائل پیجرز اور واکی ٹاکی سے حملے تھے۔
امریکی صحافی تھامس فریڈمین نے اپنے حالیہ مضمون میں کہا کہ سیاسی لاپرواہی سے امریکہ نے خطے میں اپنی بچی کچی سیاسی ساکھ کو بھی کھو دیا۔
امریکی وزیر خارجہ کا عہدہ بھی اپنی پالیسیوں میں لاپرواہی، دوغلے پن کی وجہ سے اپنی تاثیر کھو چکا ہے۔
’کولیٹرل ڈیمیج‘ اور ’ریسٹرینٹ‘ کی اصطلاحات کے غلط استعمال کے اثرات بہت سے دوسرے معاملات اور متعدد فریقوں پر اثر ڈالتے ہیں کیونکہ اس میں تمام شہریوں کو براہ راست، بلاتفریق اور مستقل طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یہ تناؤ کو کم کرنے اور سیاسی اور سفارتی کوششوں کے مخلصانہ مطالبے کو بھی کمزور کر دیں گے۔
اس سب کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم سب تعلقات میں تناؤ کے اس مرحلے میں داخل ہو جائیں گے اور ایسے سمجھوتوں تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کریں گے جو بین الاقوامی قانون کے مطابق سب کے لیے سلامتی اور استحکام فراہم کرتے ہوں۔
اور ایک ایسے شدید اور تصادم کے مرحلے کی طرف بڑھیں گے جس میں ہر کسی کو نشانہ بنانے اور تمام علاقوں کو میدان جنگ بنانے کی اجازت ہو، جہاں بین الاقوامی اور انسانی قانون کی بجائے جنگل کا قانون ہو اور ایسا انتشار غالب آ جائے جس کی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ اور خطرناک قیمت ہو۔
اس تحریر کے مصنف نبیل فہمی مصر کے سابق وزیر خارجہ ہیں اور یہ تحریر 14 اکتوبر، 2024 کو انڈپینڈنٹ عریبیہ میں شائع ہو چکی ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔