اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو ایک ایسے منصوبے کا جائزہ لے رہے ہیں جس میں حماس کے عسکریت پسندوں کی خوراک بند کرنے کی کوشش میں شمالی غزہ میں انسانی امداد کو بند کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اگر اس منصوبے پر عمل درآمد ہوتا ہے تو لاکھوں فلسطینی جو اپنا گھر بار چھوڑنے کو تیار نہیں، وہ خوراک کے بغیر وہاں پھنس جائیں گے۔
اسرائیل نے اتوار کو اعلان کیا تھا کہ لوگ شمالی غزہ سے نکل جائیں، اور اس سے قبل بھی اعلانات کیے جاتے رہے ہیں۔
ریٹائرڈ جرنیلوں کے ایک گروپ کی جانب سے نتن یاہو اور اسرائیلی پارلیمنٹ کو تجویز کردہ منصوبے سے دباؤ میں اضافہ ہوگا، اس میں فلسطینیوں کو غزہ شہر سمیت غزہ پٹی کے شمالی تہائی حصے سے نکلنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا جائے گا۔
اے پی کو دی گئی اس منصوبے کی ایک کاپی کے مطابق جو لوگ پیچھے رہ جائیں گے انہیں جنگجو تصور کیا جائے گا جس کا مطلب ہے کہ عسکری قوانین کے تحت اسرائیلی فوجیوں کو اجازت ہوگی کہ وہ انہیں جان سے مار سکیں اور انہیں خوراک، پانی، ادویات اور ایندھن سے محروم رکھا جائے گا۔
اس منصوبے میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر معینہ مدت تک شمال پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے تاکہ حماس کے بغیر ایک نئی انتظامیہ تشکیل دینے کی کوشش کی جا سکے اور غزہ کی پٹی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکے۔
حکومت کی طرف سے نام نہاد ’جنرلز پلان‘ کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ اس پر کتنی سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔
جب اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل نادوو شوشانی سے پوچھا گیا کہ کیا شمالی غزہ سے انخلا کا حکم ’جنرلز پلان‘ کا پہلا مرحلہ ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔
انہوں نے کہا، ’ہمیں اس طرح کا کوئی منصوبہ نہیں ملا۔‘
لیکن اس معاملے سے واقف ایک عہدیدار نے کہا کہ منصوبے کے کچھ حصوں پر پہلے ہی عمل درآمد کیا جا رہا ہے، لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ کون سے حصے۔
ایک دوسرے عہدے دار، جو اسرائیلی ہیں، نے کہا کہ نتن یاہو نے اس منصوبے کو ’پڑھا اور مطالعہ کیا ہے، جنگ کے دوران ان تک پہنچنے والے بہت سے منصوبوں کی طرح،‘ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا ان میں سے کسی پر عمل کیا گیا تھا یا نہیں۔ ان عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی ہے۔
اتوار کو اسرائیل نے شہر کے شمال میں واقع جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق یکم اکتوبر کے بعد سے شمالی غزہ تک پہنچنے والی امداد کی مقدار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ واشنگٹن ایسے کسی بھی منصوبے کے خلاف ہے جس سے غزہ پر براہ راست اسرائیلی قبضہ ہو۔
منصوبے کے متعلق انسانی حقوق کی تنظیموں کو خدشہ
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے شہریوں کو بھوکا رکھے جانے کا امکان ہے اور یہ بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے، جس میں خوراک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے اور جبری منتقلی سے منع کیا گیا ہے۔
یہ الزامات کہ اسرائیل جان بوجھ کر غزہ میں خوراک کی فراہمی محدود کر رہا ہے، بین الاقوامی عدالت انصاف میں اس کے خلاف نسل کشی کے مقدمے میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، لیکن اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
اسرائیلی این جی اوز کے ایک اتحاد نے پیر کو بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ کارروائی کرے اور کہا کہ ’اس بات کے خطرناک اشارے موجود ہیں کہ اسرائیلی فوج خاموشی سے اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کر رہی ہے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’ریاستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قحط اور جبری منتقلی کے جرائم روکیں‘، انہوں نے متنبہ کیا کہ ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی حکمت عملی جاری رکھنے سے اسرائیل شمالی غزہ کو ختم کرنے کے قابل ہو جائے گا۔‘
اب تک بہت کم فلسطینیوں نے انخلا کے حالیہ اعلان پر توجہ دی ہے۔ کچھ بوڑھے ہیں، بیمار ہیں یا اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیں، لیکن بہت سے لوگوں کو ڈر ہے کہ کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے اور انہیں کبھی واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اسرائیل نے ان لوگوں کو واپس آنے سے روک دیا ہے جو جارحیت کے دوران پہلے اپنے گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
غزہ شہر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہنے والی آکسفیم کی 26 سالہ فلسطینی امدادی کارکن جومانا الخلیلی نے کہا کہ ’غزہ کے تمام باشندے اس منصوبے سے خوف زدہ ہیں۔‘
انہوں نے جنوبی غزہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’پھر بھی، وہ چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ وہ دوبارہ غلطی نہیں کریں گے ۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے، اسی لیے شمال کے لوگ کہتے ہیں کہ چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ مر جائیں۔‘
یہ منصوبہ اس وقت سامنے آیا ہے جب حماس نے زبردست طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تل ابیب پر راکٹ فائر کیے ہیں اور اسرائیلی فوجوں کے انخلا کے بعد علاقوں میں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں۔
حماس کے ساتھ ایک سال کی تباہ کن لڑائی کے بعد، اسرائیل کے پاس غزہ میں چند ماہ پہلے کے مقابلے میں بہت کم زمینی فوجی موجود ہیں اور حالیہ ہفتوں میں اس نے اپنی توجہ حزب اللہ کی طرف کر لی ہے اور جنوبی لبنان پر حملہ کیا ہے۔ دونوں محاذوں پر فائر بندی پر پیش رفت کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غزہ پٹی پر اسرائیلی حملے میں 42 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے گئے، مرنے والوں میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں۔
شمالی غزہ کے لوگ ’ہتھیار ڈالنے یا بھوکے رہنے‘ پر مجبور ہو سکتے ہیں
عوامی سطح پر دستیاب معلومات کے مطابق جنرلز پلان گذشتہ ماہ ریٹائرڈ جرنیلوں اور اعلیٰ افسران کے ایک گروپ نے پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔
قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ جیورا ایلنڈ کے مطابق اس کے بعد سے وزیر اعظم کے دفتر کے حکام نے مزید تفصیلات طلب کی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیلی میڈیا کے مطابق نتن یاہو نے پارلیمانی دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں بتایا کہ وہ اس منصوبے پر غور کر رہے ہیں۔
ایلنڈ نے کہا کہ حماس کو روکنے اور ایک سال سے جاری لڑائی کے خاتمے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس کی امداد تک رسائی کو روکا جائے۔
ایلنڈ نے کہا، ’انہیں یا تو ہتھیار ڈالنا ہوں گے یا بھوکا رہنا پڑے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کا لازمی مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ہر شخص کو قتل کرنے جا رہے ہیں۔ اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ لوگ وہاں (شمال میں) رہنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ پانی خشک ہو جائے گا۔‘
ان کا خیال ہے کہ اس محاصرے سے حماس 100 کے قریب اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے جو سات اکتوبر کو ہونے والے حملے کے بعد سے اس گروپ کے زیر حراست ہیں۔ ان قیدیوں میں سے کم از کم 30 کو مردہ تصور کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں میں تشویش
غزہ کے اندر فلسطینیوں کے آزادانہ نقل و حرکت کے حق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی اسرائیلی تنظیم گیشا کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر تانیہ ہیری کا کہنا ہے’ مجھے سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ منصوبہ یہ کہتا ہے کہ اگر آبادی کو نکلنے کا موقع دیا جائے اور وہ نہ نکلے، تو پھر وہ سب جائز فوجی ہدف بن جاتے ہیں، حالانکہ یہ بالکل درست نہیں ہے۔‘
اے پی کے ساتھ شیئر کیے گئے منصوبے کی کاپی میں کہا گیا ہے کہ اگر یہ حکمت عملی شمالی غزہ میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے دیگر علاقوں میں بھی دہرایا جا سکتا ہے، جن میں جنوب میں خیمہ کیمپ بھی شامل ہیں جہاں لاکھوں فلسطینی پناہ گزین ہیں۔
بدھ کو جب امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے اس منصوبے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امریکہ یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ صرف امریکہ ہی غزہ پر قبضے یا غزہ کے رقبے میں کمی کا مخالف نہیں بلکہ یہ بین الاقوامی برادری کی متفقہ رائے ہے۔
شمالی غزہ میں امداد ختم
اسرائیلی جارحیت آغاز میں غزہ شہر سمیت شمالی علاقہ اسرائیل کا ہدف تھا، جب اس نے پہلی بار وہاں موجود تمام افراد کو نقل مکانی کا کہا تھا۔ اس کے بعد سے ارد گر کے علاقے ملبے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ویب سائٹ کے مطابق یکم اکتوبر سے اب تک تقریبا 80 ٹرک غزہ کے شمالی علاقوں میں داخل ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل یہ تعداد 60 ٹرک روزانہ تھی۔
اقوام متحدہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے بتایا کہ یکم اکتوبر سے ہسپتالوں کے لیے تیل کی ایک چھوٹی کھیپ شمالی علاقے میں داخل ہوئی ہے۔ اس عہدیدار نے خفیہ معلومات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
غزہ میں امدادی راستوں کی سہولت فراہم کرنے والے اسرائیلی ادارے سی او جی اے ٹی نے اس بات کی تردید کی ہے کہ شمال کی طرف جانے والی گزرگاہیں بند کر دی گئی ہیں لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ حالیہ دنوں میں کتنے ٹرک داخل ہوئے ہیں تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اقوام متحدہ کے عہدیدار نے کہا کہ اتوار کے بعد سے صرف 100 فلسطینیوں شمالی علاقوں سے نقل مکانی کی ہے۔
فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ فلپ لازارینی نے جمعرات کو ایکس پر لکھا کہ ’کم از کم چار لاکھ افراد علاقے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بنیادی سامان دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے، خوراک کی کمی بڑھ گئی ہے۔‘
العودہ ہسپتال کے ڈائریکٹر محمد محمد صالحه اور کمال ادوان ہسپتال کے ڈاکٹر رنا صلوح نے بتایا کہ فوجیوں نے غزہ شہر اور شمال کے علاقوں کے درمیان سڑکیں پہلے ہی منقطع کر دی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کا نقل مکانی کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
رنا صلوح نے کہا کہ’ شمالی غزہ اب دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ چیک پوائنٹس ہیں اور تلاشی لی جا رہی ہے، اور ہر کوئی آسانی سے پار نہیں کر سکتا۔‘