لاہور میں طالبہ کے مبینہ ریپ پر راولپنڈی میں احتجاج، 250 افراد گرفتار

راولپنڈی پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ غیر مصدقہ خبر کی بنیاد پر احتجاج کے بعد شہر کے مختلف حصوں میں نفری تعینات کر دی گئی ہے۔

17 اکتوبر 2024 کو لاہور میں نجی کالج کی طالبہ کے مبینہ ریپ کے معاملے پر احتجاج کرنے والے طلبہ کو راولپنڈی پولیس نے گرفتار کیا (راولپنڈی پولیس ایکس اکاؤنٹ)

راولپنڈی پولیس نے جمعرات کو کہا ہے کہ لاہور میں ایک نجی کالج کی طالبہ کے مبینہ ریپ کے معاملے پر راولپنڈی میں احتجاج کرنے والے کم از کم 250 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

راولپنڈی پولیس نے ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ ’گرفتار افراد میں غیر طلبہ عناصر بھی شامل ہیں۔‘

اس سے قبل پولیس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’ویڈیو فوٹیجز اور تصاویر کے ذریعے طلبہ کی شناخت کا عمل شروع (کر دیا گیا ہے)۔‘

پولیس کے بیان میں مزید کہا گیا کہ ملوث ملزمان کو قانون کے مطابق معزز عدالت سے قرار واقعی سزا دلوائی جائے گی اور ’توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ یا کوئی بھی غیر قانونی سرگرمی قابل برداشت نہیں۔ ساتھی طلبہ، اساتذہ اور شہریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔‘

پولیس نے والدین سے بھی کہا کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور انہیں کسی بھی غیر قانونی سرگرمی سے دور رکھیں، ’مجرمانہ ریکارڈ طلبہ کے مستقبل کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔‘

راولپنڈی پولیس کی نفری شہر بھر میں مختلف مقامات پر تعینات کر دی گئی ہے۔ بیان کے مطابق: ’پولیس امن و امان کی کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ یا قانون کی خلاف ورزی کسی صورت قابل قبول نہیں۔

’غیر قانونی افعال میں ملوث افراد سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، تمام صورت حال کو مانیٹر کیا جا رہا ہے، احتجاج کے پیچھے کار فرما عناصر کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔

لاہور ہائی کورٹ میں کارروائی

دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں حالیہ واقعات سے متعلق اعلیٰ سطح کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر  جمعرات کو سماعت کرتے ہوئے آئی جی پنجاب پولیس کو رپورٹ سمیت ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے رجسٹرار کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے۔

اس سے قبل گذشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کہا تھا کہ لاہور کے نجی کالج کی طالبہ کے ریپ کی ’جھوٹی خبر‘ کی منصوبہ بندی کے تانے بانے خیبر پختونخوا اور بیرون ممالک سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے ملتے ہیں۔

مریم نواز نے بدھ کو پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ 10 اکتوبر کو رپورٹ ہونے والے اس واقعے میں طالبہ کے مبینہ ریپ کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

’ہماری انتظامیہ اور پولیس کو ایک رپورٹ ملی ہے کہ پنجاب کے ایک نجی کالج میں طالبہ سے ریپ کا واقعہ ہوا ہے، ایک سکیورٹی گارڈ پر الزام لگا کہ وہ اس میں ملوث ہے جس پر انتظامیہ فوری حرکت میں آئی، اس دن سے آج تک ہم ریپ کی متاثرہ لڑکی کی تلاش میں ہیں۔‘

مریم نواز نے کہا کہ ’جھوٹی خبر‘ کے وائرل ہونے میں ایک نیٹ ورک ملوث ہے اور جن جن کو تفتیش سے شناخت کیا جائے گا، انہیں مثالی سزا دی جائے گی۔

واقعہ ہے کیا اور پولیس کا کیا کہنا ہے؟

چند روز قبل سوشل میڈیا پر لاہور میں نجی کالج کی ایک طالبہ سے کالج کے سکیورٹی گارڈ کے مبینہ ریپ کی خبر وائرل ہوئی، جس کے بعد پولیس نے اپنی کارروائی شروع کی۔ اس دوران کالج کے طالب علموں نے پیر کو کالج کے باہر احتجاج کیا اور سکیورٹی کے عملے سے مڈ بھیڑ میں کچھ طالب علم زخمی بھی ہوئے۔

اسی حوالے سے پنجاب پولیس کی جانب سے پیر کو اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس (اے ایس پی) ڈیفنس سیدہ شہربانو نقوی کا ایک ویڈیو بیان آفیشل سوشل میڈیا پر چلایا گیا جبکہ پنجاب پولیس نے بھی شہر بانو نقوی کا ایک بیان اپنے ایکس اکاؤنٹ پر چلایا۔

اس بیان میں اے ایس پی شہربانو نقوی کا کہنا تھا: ’لاہور میں افسوس ناک صورت حال سامنے آئی جس کی وجہ ڈس انفارمیشن تھی۔ ہمیں یہ سننے کو ملا کہ ایک نجی کالج کی طالبہ جس کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی ریپ کی گئی انہیں نجی ہسپتال میں لے جایا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم نے اس نجی ہسپتال کا ریکارڈ چیک کیا۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ ریپ کا شکار کسی بھی لڑکی کو اس ہسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔‘

پنجاب پولیس کے ترجمان نے بھی منگل کو جاری بیان میں کہا تھا کہ مبینہ واقعے کے حوالے سے اگر کسی شہری کے پاس کوئی بھی معلومات ہیں تو ورچوئل ویمن پولیس سٹیشن کو مطلع کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان