وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کا اجلاس اتوار کو دن ڈھائی بجے طلب کیا گیا ہے، جس کے دوران آئینی ترامیم کے حتمی مسودے کی منظوری کا امکان ہے۔
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات عطار تارڑ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اعظم نذیر تارڑ نے کہا: 'میں نے کابینہ کو تمام تجاویز سے آگاہ کیا اور تمام گفتگو کا خلاصہ پیش کیا اور پارلیمانی کمیٹی نے جو ڈرافٹ منظور کیا تھا، اس کا سارا خدوخال ان کے سامنے رکھا اور اتحادی جماعتوں کا نقطہ نظر بھی پیش کیا اور سوالوں کے جواب دیے۔'
وزیر قانون نے کہا: 'کابینہ کے اراکین اتوار کو ڈھائی بجے اجلاس میں اپنی آرا بتائیں گے۔ وزیراعظم ہمیشہ سے اس بات کے قائل ہیں کہ باہمی مشاورت سے کام ہونا چاہیے۔'
انہوں نے کہا کہ 'جمعے کو منظور کیے جانے والے ڈرافٹ میں کچھ تبدیلیاں ہوں گی اور ان تبدیلیوں کے ساتھ کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔'
وزیر قانون نے مزید کہا کہ 'یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سرکاری طور پر یہ مسودہ پیش کیا جائے یا کوئی سیاسی جماعت اسے پیش کرے، جیسے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے خواہش ظاہر کی ہے۔'
سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں کا احوال
اس سے قبل سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس جو کئی گھنٹوں کی تاخیر کے بعد ہفتے کو رات دیر گئے شروع ہوئے تھے، اتوار کی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیے گئے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار قرۃ العین شیرازی کے مطابق ڈپٹی سپیکر سید میر غلام مصطفیٰ شاہ اجلاس کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس 11 بج کر 51 منٹ پر شروع ہوا اور محض چار منٹ بعد 11 بج کر 55 منٹ پر اجلاس ختم کر دیا گیا۔ پہلے اس اجلاس کو اتوار کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کیا گیا تھا، جس کا وقت بعدازاں سہ پہر تین بجے کردیا گیا۔
سینیٹ کا اجلاس ہفتے کی شب ساڑھے 10 بجے شروع ہوا تھا، جسے 12 بجے آدھے گھنٹے کے لیے اور بعدازاں اتوار کو ہی سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
ڈپٹی چیئرمین سردار سیدال خان ناصر کی صدارت میں جب سینیٹ کا اجلاس شروع ہوا تو وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایوان میں بینکنگ سے متعلق قانون میں ترامیم کا بل پیش کیا۔
ہفتے کی رات شروع ہونے والے سینیٹ کے اجلاس میں 49 اراکین موجود تھے، جن میں پی ٹی آئی، جو یو آئی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹرز شامل نہیں تھے۔
’ترامیم والے سینیٹرز‘
ہفتے کی رات سینیٹ کے اجلاس کے دوران سینیٹر دنیش کمار نے ڈپٹی چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 26 ویں ترمیم آج ہی پیش کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک مہینے سے ترمیم کے پیش ہونے سے متعلق باتیں ہو رہی ہیں اور اب تو لوگوں نے ہمیں ترامیم والے سینیٹر کے نام سے پکارنا شروع کر دیا ہے۔‘
اس پر ڈپٹی چیئر نے کہا کہ 26 ویں ترمیم پر بعد میں بات کی جائے گی۔
26 ویں آئینی ترمیم پر حکومت سے کوئی بڑا اختلاف نہیں رہا: فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ہفتے کو کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت سے کوئی بڑا اختلاف نہیں رہا۔
اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'طویل مشاورت کے بعد پیپلز پارٹی اور جے یو آئی نے آئینی ترمیمی بل پر جو اتفاق رائے حاصل کیا تھا اور کراچی میں مشترکہ پریس کانفرنس مں اس کا اظہار کیا تھا اور بعد میں لاہور آکر مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ اسے شیئر کیا، اس ]ر طویل مشاورت ہوئی اور بات چیت ہوئی۔
'جو ابتدائی مسودہ تھا اور جسے ہم نے مسترد کردیا تھا، اس کے جتنے حصوں پر ہم نے اعتراض کیا، حکومت اس کے تمام حصوں سے دستبردار ہونے پر راضی ہوئی اور تب جاکر اتفاق رائے ہوا۔'
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'حکومت کے ساتھ کوئی بڑا متنازع نکتہ موجود نہیں ہے۔ اکثر اختلافی اجزا اب تحلیل ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے پورے ایک مہینے میں پی ٹی آئی کو بھی اعتماد میں لیے رکھا اور حکومت کے ساتھ جتنی پیش رفت ہوئی، ان کو اس سے آگاہ رکھا۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'میرے پاس بانی پی ٹی آئی کا جو پیغام پہنچا، وہ مثبت تھا اور میں ان کا شکرگزار ہوں۔ انہوں نے کل کا دن مانگا، ہمیں ان کا جواب کل موصول ہوگا، ہم کل تک کا انتظار کر رہے ہیں اور جو جواب موصول ہوگا، اس سے قوم کو آگاہ کریں گے۔'
پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ قانون سازی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رائے چاہتے ہیں۔
حکومت لگ بھگ ایک ماہ سے مجوزہ آئینی ترمیم کو پارلیمان سے منظور کروانے کے لیے کوشاں ہے لیکن مطلوبہ اکثریت نہ ہونے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مولانا فضل الرحمٰن کی مخالفت کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔
پی ٹی آئی اور جمعیت علمائے اسلام نے حکومت کا ابتدائی مسودہ مسترد کر دیا تھا، جس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ وہ متفقہ آئینی ترامیم کی کوشش کر رہے ہیں۔
اپوزیشن اور حکومتی اتحادی جماعتوں کی کئی بیٹھکوں کے بعد جمعے کو آئینی ترامیم کے حوالے سے پارلیمنٹ کی قائم خصوصی کمیٹی کے سربراہ اور پی پی پی کے سینیئر رہنما خورشید شاہ نے اعلان کیا تھا کہ کمیٹی نے 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ متفقہ طور پر منظور کرلیا ہے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے بتایا تھا کہ آئینی مسودہ وفاقی کابینہ سے منظور کروایا جائے گا۔
تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ان کی مشاورت جاری ہے اور وہ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کر کے ان کی ہدایات کے مطابق آگے بڑھیں گے۔
آئینی ترامیم پر پی پی پی، جے یو آئی متفق، فیصلہ پی ٹی آئی پر منحصر: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ہفتے کو کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت جمعیت علمائے اسلام سے آئینی ترامیم کے معاملے پر 100 فیصد اتفاق ہوا ہے۔
آج بلاول بھٹو زرداری مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ پہنچے تھے۔ جب کہ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا وفد بھی مولانا سے ملاقات کرنے پہنچا تھا۔
اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن سے طویل ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئین سازی کا عمل تیزی سے جاری ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ان سے جو ہو سکا انہوں نے کیا اور ان کی خواہش ہے کہ ’مولانا فضل الرحمٰن ترامیم کا مسودہ خود پیش کریں۔‘
’مولانا صاحب نے پی ٹی آئی کے ساتھ طے کیا تھا کہ عمران خان سے ان کی ملاقات میں ہدایات لیں گے۔ اب ملاقات ہو گئی ہے۔ مولانا صاحب ان سے بات کریں گے امید ہے کہ مولانا پی ٹی آئی کو بھی قائل کر لیں گے کہ حکومت کے نہیں تو مولانا کے ڈرافٹ کو ووٹ دیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سیاست میں سو فیصد کامیابی نہیں ہوتی اور سیاست نام ہے ہی اتفاق رائے کا۔
’ہم سے جو ہو سکا سیاسی طور پر کر لیا ہے۔ اب ذمہ داری پی ٹی آئی پر ہے اگر آپ سنجیدہ ہیں یہ تاثر نہ جائے کہ حکومت کا بل ہے۔ پارلیمان، جمہوریت کو بچانا ہے۔‘
بلاول نے کہا کہ امید ہے کہ اس مرتبہ آئینی ترامیم کے معاملے پر تحریک انصاف مثبت سیاست کرے گی۔
’یہ ترمیم سب کے ووٹوں اور اعتماد سے منظور ہوتی ہے تو 18ویں ترمیم کی طرح ہو گی۔ اگر اکثریت (کی بنیاد) سے منظور ہوتی ہے تو عدالت تو بن جائے گی لیکن پارلیمان کی شکست ہو گی۔‘
اس سے قبل وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ان ترامیم کا بڑا مقصد پارلیمنٹ کی بالادستی کو قائم کرنا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’ساری سیاسی جماعتوں کا اس پر اتفاق ہے کہ پارلیمنٹ کی بالاستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔۔ اس چیز کو درست کرنے کے لیے یہ ترمیم کی جا رہی ہے اور ہمارے پاس نمبرز پورے ہیں۔‘
وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ ’اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو پھر بھی ترمیم پیش کی جائے گی۔‘
’بانی پی ٹی آئی سے واضح ہدایات کے بغیر ترامیم پر فیصلہ نہیں کریں گے‘
دوسری جانب پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر گوہر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان سے آئینی ترامیم کے معاملے پر واضح ہدایات کے بغیر فیصلہ نہیں کریں گے۔
میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ان کے ساتھ پارٹی رہنماؤں میں اسد قیصر، علی ظفر، حامد رضا اور دیگر بھی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات میں شریک تھے۔
’بانی پی ٹی آئی نے ہماری اور مولانا فضل الرحمٰن سے گفتگو کو مثبت لیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے آئینی پیکج کے معاملے کو مثبت انداز سے لیا اور مولا فضل الرحمٰن کی تعریف بھی کی۔
حکومت کے لیے چیلنجز
حکومت کے لیے اب بھی اس عمل میں کئی چیلنجز ہیں جن میں سے وکلا تنظمیوں کی طرف سے مجوزہ آئینی ترامیم کی مخالفت ہے کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد عدالتی تقرریوں کے لیے ایگزیکٹو کو مزید اختیارات دینا ہے۔
مجوزہ ترامیم میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام، اعلیٰ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین سال اضافے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی تقرری کے عمل میں تبدیلی کی متوقع ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وفاقی آئینی عدالت بنانے کے حق میں ہیں جبکہ جے یو آئی کی تجویز ہے کہ سپریم کورٹ میں پانچ سینیئر ججوں پر مشتمل آئینی بینچ قائم کیا جائے۔
بلاول بھٹو نے گذشتہ رات حیدر آباد میں جلسے سے خطاب میں کہا تھا آئینی عدالت بنانا ان کا حق ہے اور ان کا یہ مطالبہ ماننا پڑے گا۔
’آئینی عدالت کا قیام ہمارا دہائیوں پر مبنی مطالبہ ہے، آپ کو ہمارا مطالبہ ماننا پڑے گا اور آئینی عدالت بنانی پڑے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم سیاسی جماعتوں کا امتحان ہے، ’ ہماری کوشش ہے کہ ہم متفقہ طور پر 18 ویں ترمیم کی طرح یہ آئین سازی کریں۔‘
بلاول بھٹو کے مطابق وہ اکیلے آئین سازی نہیں کرنا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں متفقہ طور پر ترمیم کرنے کی بجائے اکثریتی فیصلے سے ترمیم کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔