ایک زمانہ تھا جب پاکستان کے کاروباری مرکز کراچی میں بڑی تعداد میں گدھا گاڑیاں ہوا کرتی تھیں جو سامان کی ترسیل کا اہم ذریعہ تھیں۔
لیکن گدھوں کی خوراک کے بڑھتے اخراجات اور شہر کی پھیلتی ہوئی حدود نے ان گدھوں کو اس کام سے باہر کر دیا ہے۔
کراچی کے جنوبی حصے کے تنگ بازاروں میں آواز پیدا کرتی گدھا گاڑیاں عرصہ دراز سے مال کی ترسیل کے لیے لازمی ہوا کرتی تھیں کیونکہ بڑی گاڑیوں کے لیے بازاروں تک رسائی ممکن نہیں تھی۔
کم آمدنی والے مزدوروں کے لیے یہ بوجھ اٹھانے والے جانور روٹی روزی کا ذریعہ تھے۔
مگر بڑھتی ہوئی مہنگائی نے چارہ مہنگا کر دیا اور پھر شہر کی آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو گیا جو قیام پاکستان سے پہلے کی آبادی سے تقریباً 50 گنا زیادہ ہے۔
اب طویل فاصلے ان جانوروں کی حد برداشت کا امتحان بن چکے ہیں۔
راجہ نامی گدھے کے مالک، محمد مالک کے بقول: ’ہم نے باپ دادا کا کام جاری رکھا مگر میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے پڑھیں اور کچھ اور کریں۔‘
27 سالہ عاطف روزانہ اپنے گدھے پر ساڑھے سات سو روپے خرچ کرتے ہیں جبکہ پہلے صرف دو سو روپے خرچ ہوتے تھے جو عاطف کے اپنے کھانے کی پلیٹ کی قیمت ہے۔
نوآبادیاتی دور کی بولٹن مارکیٹ میں کام کرنے والے عاطف نے بتایا کہ ’اب اس کام سے روزی کمانا مشکل ہو گیا ہے۔‘
سرکاری تخمینے کے مطابق پاکستان میں تقریباً 60 لاکھ گدھے موجود ہیں یعنی ملک کے ہر 40 افراد کے لیے ایک گدھا ہے۔
مقامی جانوروں کے بیوپاری اسلم شاہ نے بتایا کہ زیادہ تر گدھے کراچی میں ہیں جو تقسیم ہند کے بعد نقل مکانی کی وجہ سے دو کروڑ سے زیادہ آبادی والا شہر بن گیا۔
69 سالہ اسلم شاہ نے کہا کہ اب گدھوں کی طلب کم ہو چکی ہے اور ہر اتوار کو لگنے والے جانوروں کے بازار میں بہت کم فروخت ہوتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کبھی کبھی ہفتے اور مہینے گزر جاتے ہیں اور ہم ایک بھی گدھا فروخت نہیں کر پاتے۔‘
بولٹن مارکیٹ میں دن کے وسط میں دکانیں کھلتی ہیں۔ خریداری کے بعد سامان لے جانے کے لیے لوگوں کی گدھا گاڑی کے مالک سے بات چیت شروع ہوتی مگر زیادہ تر گدھا گاڑیاں خالی رہتی ہیں۔ ان کے مالکان اور جانور بیکار بیٹھے رہتے ہیں۔
یہ گدھا گاڑیاں کبھی سڑکوں پر اتنی عام تھیں کہ حکومت نے انہیں نمبر پلیٹس جاری کیں۔ مگر اب شہر میں نئی سڑکیں اور اوور پاس بن چکے ہیں جہاں ایسی گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے جنہیں جانور کھینچتے ہیں۔
21 سالہ علی عثمان نے تین پہیوں والے موٹر رکشہ جس میں چاول کی بوریاں لادی جا رہی تھیں، کی طرف حسرت سے دیکھتے ہوئے کہا ’مجھے بتایا گیا ہے کہ کافی سامان لے جانا ہے اور مجھے سامان پہنچانے کے لیے شہر کے دوسرے کنارے تک جانا ہو گا۔
’مجھے تین سے چار گھنٹے لگیں گے۔ اتنے وقت میں رکشہ دو چکر لگا لے گا۔ اس لیے مجھے کام نہیں دیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1884 میں تعمیر ہونے والی ایمپریس مارکیٹ کے تھوک فروش نعمان فرحت نے کہا کہ وہ روزانہ کچھ کام گدھا گاڑی مالکان کو دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گدھا گاڑیاں ہماری ثقافت کا حصہ ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ یہ کام ختم ہو جائے۔‘
کراچی میں جانوروں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے شخص جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، نے کہا کہ بڑھتے ہوئے فاصلے اور خراب سڑکیں جانوروں کو تھکا دیتی ہیں۔
’وسائل کی کمی کی وجہ سے گدھا گاڑی مالکان رسی یا کپڑا استعمال کرتے ہیں جس سے گدھوں کے جسم پر رگڑ کے زخم بن جاتے ہیں۔‘
بدسلوکی کی وجہ سے گدھوں کے منہ کے قریب زخم بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے چارہ کھانا مشکل ہو جاتا ہے۔
مگر کچھ لوگوں کو اب بھی یقین ہے کہ کراچی میں گدھے موجود رہیں گے۔
کراچی کے بنجی پروجیکٹ اینیمل شیلٹر کی منیجر شیما خان نے کہا: ’ان مشکل حالات کے باوجود یہ جانور غیر رسمی معیشت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ اب بھی نقل و حمل کا سب سے سستا ذریعہ ہیں۔‘