’گدھے کی سواری سے لے کر اوریئنٹ سکائی لائنر میں سفر۔‘ یہ بلتستان کے وزیر فرمان علی کی کتاب کا ایک جملہ ہے، جو وفاقی سطح کے بیوروکریٹ رہے ہیں۔
انہوں نے اپنی انگریزی خودنوشت، جو بعد از مرگ شائع ہوئی، میں اپنی طویل جدوجہد کو بیان کیا ہے کہ کس طرح بلتستان کا ایک عام آدمی کامیابی کے مختلف مراحل طے کرتا گیا اور فیڈرل جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوا۔
ان کی کتاب کا ٹائٹل جہاں ایک طرف ان کی اپنی ذاتی کہانی بیان کرتا ہے وہاں دوسری جانب دراصل بلتستان میں ذرائع حمل و نقل کا ایک تمثیلی اظہار بھی ہے۔
میں اسی ٹائٹل والے جملے کو عنوان بنا کر سکردو بلتستان میں سفری سہولیات کی تاریخ اور خاص طور پر جہاز آنے کی کہانی بیان کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
بلتستان کا علاقہ قیام پاکستان سے پہلے برٹش انڈیا، کشمیر، تبت اور چینی ترکستان سے مختلف دروں اور گزرگاہوں کے ذریعے جڑا ہوا تھا۔
گرمیوں میں جب برف پگھل جاتی تو سکردو کے جنوب میں دیوسائی کے راستے برزل پاس سے گزرتے ہوئے گریز، تراگ بل پاس کے بعد سری نگر جاتے اور وہاں سے اگلی منزلوں کی راہ لی جاتی تھی۔
دوسرا کھرمنگ کے راستے دریائے سندھ اور دریائے کارگل کے کنارے کنارے کرگل اور زوجیلہ پاس سے سری نگر اور دیگر علاقوں کی طرف سفر کیا جاتا تھا۔
تیسرا راستہ خپلو سے آگے پیون گاؤں اور پھر چھوربٹ پاس کے ذریعے لداخ اور پھر آگے قراقرم پاس کے راستے مشرقی ترکستان۔
خپلو سے ہی آگے فرانو گاؤں پھر ٹقشی، تورتک، چولونکھا اور کھاری ڈونگ پاس کے بعد نوبراہ لداخ پہنچنے کا راستہ موجود تھا۔
شگر کی جانب سے دو راستے مقبول عام رہے ہیں جن میں ایک بیافو ہیسپر گلیشیر کے راستے نگر ہنزہ اور آگے ترکستان۔
جبکہ دوسرا بلترو ریجن سے آگے مزتاغ پاس کے بعد اغیل پاس اور ختن اور پھر یار قند۔ سکردو سے ایک مشکل سفر مغرب کی طرف روندو وادی کے راستے گلگت کی طرف نکلتا تھا جہاں اب ٹرک روڈ بن گئی ہے۔
ان تمام راستوں میں پیدل اور گھوڑوں کے ذریعے سفر کیا جاتا تھا، تاہم میسرز سپینڈگ کمپنی نے سرینگر سے گلگت تک برزل پاس سے چھوٹی گاڑیوں کے لیے راستہ بنایا تھا۔
یوں پہلی موٹر 1930 میں اسی راستے سے استور اور گلگت پہنچی۔
دوسری جانب سکردو سے گلگت کے لیے 1965 میں چھوٹی گاڑیوں کے لیے سڑک بنائی گئی جبکہ قراقرم ہائے وے کی تکمیل 1978 میں پاک چائنا مشترکہ پراجیکٹ کے تحت ہوئی۔
خپلو پیون سے چھوربٹ پاس کا راستہ اور چولونکھا سے آگے نوبراہ لداخ کا سفر بھی پیدل اور دشوار ضرور تھا لیکن شگر مزتاغ پاس اور بیافو ہیسپر کا راستہ حد درجہ مشکل، دشوار گزار برفیلی کھائیوں اور گلیشیر پر مشتمل تھا جس پر سفر کرنا جان جوکھوں سے کم نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ بلتستان میں جیپ سے پہلے جہاز پہنچا ہے، اور یہاں کے لوگ گاڑی کی سیٹوں سے پہلے جہاز کی نشستوں سے واقف ہو گئے تھے۔
اس ہوائی سفر کے آغاز کی کوشش 1948 سے ایک آدھ سال پہلے اس وقت کی گئی جب یہاں قابض ڈوگرہ حکومت نے سکردو کے مغرب میں واقع ریتلے میدان میں چکنی مٹی کا ہوائی اڈہ بنانے کا کام شروع کیا۔
یہ وہی جگہ ہے جہاں آج کل آرمی ایوی ایشن کا اڈہ ہے۔ لیکن جب جنگ آزادی شروع ہوئی تو ڈوگروں کو اندازہ ہو گیا کہ علاقہ ان کے ہاتھ سے نکل رہا ہے لہٰذا انہوں نے کچے ہوائی اڈے کو درختوں اور پتھروں سے ڈھانپ دیا۔
محمد علی صاحب نے 35 سال پی آئی آئے کی ملازمت کی اور بطور منیجر ایئرپورٹ کے ریٹائرڈ ہوئے۔ وہ اپنے وسیع مطالعہ اور تجزیاتی سوچ کی وجہ سے منفرد ہیں اور ’محمد علی پی آئی اے‘ کے نام سے زیادہ پہچانے جاتے ہیں۔
میں نے جب ان سے سکردو میں فضائی سفر کے آغاز اور اس کے لیے کیے گئے مختلف انتظامی معاملات پر گفتگو کی تو انہیں نے دلچسپ معلومات میرے سامنے رکھ دیں۔
1949 سے 1964-65 تک ڈکوٹا جہاز اسی ہوائی میدان میں اترا جس کی تعمیر کا آغاز ڈوگرہ حکومت کے عہد میں شروع کیا گیا تھا اور نامکمل تھا۔
بعد میں اسی جگہ میں حکومت پاکستان نے چکنی مٹی اور بجری سے لینڈنگ سٹرپ تیار کیا تھا جس پر ڈکوٹا جہاز اترنا شروع ہوا۔ ڈکوٹا جہاز 25 نشستوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا جہاز تھا یوں اولین فضائی سفر کا آغاز اورینٹ ایئرویز کے نام سے ہوا تھا۔
ابتدا میں کرایہ 25 روپے فی نفر کے حساب سے تھا اور دن میں کئی بار ڈکوٹا جہاز سکردو ہوائی اڈے پر لینڈ کرتے تھے جس میں زیادہ تر خوردونوش کا سامان اور گندم کی بوریاں لائی جاتی تھیں۔
چونکہ 1965 تک سکردو گلگت روڈ تعمیر نہیں ہوئی تھی لہٰذا بلتستان ریجن کے لیے سفری سہولت اور مال برداری کام جہاز کے ذریعے تھا۔
ڈکوٹا ڈگلس ایئر کرافٹ کمپنی اینڈ ٹرانسپورٹ ایئرکرافٹ کا مخفف ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں اتحادی افواج نے اس جہاز کا بہت زیادہ استعمال کیا تھا۔
1965 تا 1986 کے دوران سکردو کے لیے فوکر نے ڈکوٹا جہاز کی جگہ لے لیا۔ فوکر ایک ڈچ ماہر جہاز ساز ’انتھونی فوکر‘ کے نام سے منسوب ہے۔
یہ چالیس نشستوں والا ائرکرافٹ تھا اور سکردو کے لیے شروع شروع میں اس کا کرایہ 75 روپے تھا۔
غلام نبی صاحب ڈپٹی کمشنر سکردو رہے ہیں۔ سروس کی ابتدائی دنوں میں وہ پبلک ریلیشنز آفیسر رہے ہیں اس دوران 1964 تا 1966 میں بلتستان کے پولیٹیکل ایجنٹ بنات گل آفریدی تھے۔ بنات گل آفریدی کی بلتستان کے لیے بڑی خدمات ہیں۔
ان کی دیگر خدمات کے علاوہ سکردو میں فوکر جہاز کو ریگولر لانے میں ان کا بڑا کردار رہا ہے۔ غلام نبی صاحب کی پبلک ریلیشنز آفیسر کے طور پر کھینچی گئی کچھ بلیک اینڈ وائٹ تصاویر ان کے بڑے بیٹے اشفاق احمد کے ذریعے ملی۔
ان تصاویر میں جو کیپشن دیے گئے ہیں ان کے مطابق بنات گل آفریدی سکردو کے دکانداروں اور پی آئی اے حکام کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں کہ کس طرح فوکر ائیر کرافٹ میں رعایتی نرخوں پر سامان لانے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
یہ مذاکرات موجودہ ڈی سی ہاؤس حمید گڑھ جہاں پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کا آفس تھا وہاں منعقد ہونے تھے۔
اس وقت ایئرپورٹ سے سکردو آنے جانے کے لیے کچی سڑک تھی اور پبلک اور نجی ٹرانسپورٹ کا وجود نہیں تھا۔
جنہوں نے جہاز میں اسلام آباد جانا تھا وہ صبح تڑکے پیدل نکلتے اور ایئرپورٹ پہنچ جاتے تھے۔ جو سامان فوکر جہاز کے ذریعے آتا تھا اس کو شہر تک لانے کے لیے خچر اور گھوڑے استعمال کیے جاتے تھے۔
جون 1986 سے سے بوئنگ کی ہفتہ وار پروازیں شروع ہوئیں اور ستمبر 1987 کے بعد سے باقاعدہ فلائٹس آنا شروع ہوئی۔ اس وقت بوئنگ کا کرایہ 205 روپے تھا۔
شروع شروع میں جب اوریئنٹ ایئرویز کے نام پروازیں شروع ہوئی تو سکردو میں وزیر فیض سکردو سٹیشن کے منتظم تھے جن کا تعلق روندو سے تھا۔
ان کے ساتھ محمد جعفر بھی تھے جو ہمارے کلاس فیلو کرنل قاسم کے والد محترم تھے۔
محمد جعفر صاحب وزیر فیض کے بعد منتظم بنے اور 1993 تک یہ ذمہ داری نبھائی۔ ان کی خپلو سے نکلنے اور پی آئی اے سکردو سٹیشن کے منتظم بننے تک کی جدوجہد اور سخت محنت کی کہانی کو ہمارے دوست افضل منڈوق نے وڈیو میں محفوظ کیا ہے۔
محمد جعفر صاحب کا جنگ آزادی بلتستان میں بھی مجاہدین کو راشن پہنچانے میں بطور منتظم کردار رہا ہے۔ اس وڈیو میں مرحوم جعفر صاحب سکردو میں مختلف جہازوں کی آمد رفت کی بڑی دلچسپ کہانی بیان کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ شروع شروع میں جب ڈکوٹا اور فوکر جہاز اترتے تو ایئر فیلڈ گردو غبار سے ڈھک جاتا اور کافی دیر کے بعد دروازہ کھول کر مسافروں کو باہر بھیج دیا جاتا تھا، کیونکہ ایئر سٹرپ مٹی کی بنی ہوئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ابتدائی پروازیں پشاور ایئرپورٹ سے سکردو کے لیے اڑان بھرتی تھیں اور سارے پائلٹ پولش اور برطانوی نژاد تھے اور دن میں پانچ سے دس تک پروازیں آتی تھیں۔
ایک دلچسپ کہانی انہوں نے بیان کی کہ شروع شروع میں مسافروں کے سامان کا باقاعدہ وزن نہیں کیا جاتا تھا لہٰذا اکثر دکاندار راولپنڈی سے جہاز میں سکردو آنے کے دوران دو یا تین کوٹ واسکٹ پہن لیتے تھے اور ان سب کے جیبوں میں مختلف سامان ٹھونس ٹھونس کر پھول کر کپا بن جاتے اور یوں مفت میں اپنا سامان سکردو پہنچاتے تھے۔
گو کہ پائلٹس کو پتہ چل جاتا تھا مگر وہ مسکرا کر نظر انداز کر دیتے تھے۔
ایک اور دلچسپ بات جو انہوں نے بتائی وہ یہ تھی کہ سکردو ایئرپورٹ پر وزن کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ سکیل موجود نہیں تھا ایک بڑا سا ترازو تھا جس میں مرد ہو یا عورت، آفیسر ہوں یا کوئی مذہبی عالم اپنی وضع قطع کے ساتھ ترازو کے ایک پلڑے میں لٹک جاتے تھے اور دوسری جانب باٹ رکھ دیے جاتے تھے۔
یوں بڑا ٹھٹھہ اڑتا تھا لیکن یہ ایک مجبوری تھی اور ایسا ہی کرنا پڑتا تھا۔ انہوں نے ایئر سٹرپ سے روایتی طریقوں سے برف ہٹائے جانے کے قصے بھی بیان کیے جس میں کئی دن لگتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ فضائی سفر میں بہتری آئی اور ایئر بس بھی سکردو پہنچ گئی اور اب اسی مہینے بین الاقوامی پروازیں بھی باقاعدہ طور سے شروع ہو رہی ہیں۔
کوہ پیمائی کی مشہور ٹیمیں بھی ڈکوٹا، فوکر اور بوئنگ جہازوں کے ذریعے سکردو آتی رہی ہیں جس میں مشہور زمانہ 1954 میں پہلی دفعہ کے ٹو سر کرنے والی اٹالین کوہ پیما ٹیم بھی شامل ہے۔
اس ٹیم کے ایک فوٹوگرافر کی بنائی گئی جہاز کے سفر، لینڈنگ کی تصاویر اور وڈیوز آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔