اسلام آباد میں سڑکوں کی بندش: کیا شہریوں کے بھی کوئی حقوق ہیں؟

آئے روز حکومت کی جانب سے سڑکیں اور داخلی و خارجی راستے بند کیے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے عام شہریوں کے معمولات زندگی شدید متاثر ہوتے ہیں۔ کیا ان اقدامات کو چیلنج کیا جا سکتا ہے؟

26 نومبر 2022 کو اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسے کے مقام کے قریب ایک سڑک کو کنٹینرز لگا کر بند کیا گیا، جس کی وجہ سے شہریوں کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا (فاروق نعیم / اے ایف پی)

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد گذشتہ ایک دہائی سے مسلسل جلسوں، مظاہروں اور احتجاجوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ایسے میں آئے روز حکومت کی جانب سے سڑکیں اور داخلی و خارجی راستے بند کیے جاتے ہیں، جن کی وجہ سے عام شہریوں کے معمولات زندگی شدید متاثر ہوتے ہیں۔

چند روز قبل ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان حکومت کے اجلاس کی سکیورٹی کی وجہ سے بھی پورا اسلام آباد بند تھا، جس سے عام شہریوں کو نقل و حرکت میں شدید مشکلات ہوئیں۔

اس حوالے سے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چونکہ یہ کانفرنس بہت اعلیٰ سطح کی تھی اور انٹیلی جنس ذرائع سے دہشت گرد تنظیموں کے انتہائی سنجیدہ نوعیت کے تھریٹ الرٹس بھی موصول ہوئے تھے، اس لیے کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے سب کچھ بند کرنا پڑا، یقینی طور پر اس سے عوام کو وقتی تکلیف ہوئی لیکن ریاست نے عوام کو کسی بڑے نقصان سے بچا بھی لیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’عام شہریوں کو اندازہ نہیں ہے کہ پیٹرول پمپس یا مارکیٹیں بند کروانے کے پیچھے کیا عوامل تھے لیکن یہ سب کسی بڑی تباہی سے بچنے کے لیے کرنا پڑا۔ دنیا بھر میں وی وی آئی پی روٹس پر ایسے ہی سکیورٹی ہوتی ہے، کسی پرندے کو بھی پَر مارنے کی اجازت نہیں ہوتی، اس لیے تین دن کی چھٹی دی گئی تھی کہ شہری تکلیف سے بچنے کے لیے گھروں پر آرام کریں اور حکومت کو اپنا کام کرنے دیں۔‘

سڑکوں اور کاروبار زندگی کی بندش جیسے اقدامات کو کیا عام شہری چیلنج کر سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل قمر افضل سے رابطہ کیا، جن کا کہنا تھا کہ جب معاملہ قومی سلامتی کا ہو تو پھر اس حوالے سے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔

بقول قمر افضل: ’ایک چیز پر آئین اور قانون کمپرومائزڈ ہے اور وہ ہے ریاست کی سکیورٹی، جب معاملہ نیشنل سکیورٹی کا ہو تو پھر آئین یا قانون کچھ نہیں کر سکتا، نیشنل سکیورٹی ایک ایسا معاملہ ہے جس کو یقینی بنانے کے لیے ریاست ہر قدم اٹھاتی ہے، لیکن اب سوال یہ ہے کہ عام شہریوں کے آئینی حقوق بھی متاثر نہ ہوں یا پھر نیشنل سکیورٹی اور عام شہریوں کے حقوق کو متوازن رکھا جائے۔ جیسا کہ ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کو کسی بھی صورت روکا نہیں جا سکتا۔ ہاں سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ان کی چیکنگ ضرور کریں لیکن ان کو جانے کی اجازت ہونی چاہیے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’جیسے شنگھائی تعاون تنظیم کے موقعے پر نیشنل سکیورٹی کے تحت اقدامات کیے گئے کیونکہ ریاستی مہمانوں کی سکیورٹی کی ذمہ داری اول تھی لیکن اس کے لیے بھی پورا شہر بند نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ جہاں ضرورت تھی، وہ راستے غیر متعلقہ افراد کے لیے بند کیے جا سکتے ہیں۔‘

آئین عام شہریوں کے حقوق کے حوالے سے کیا کہتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں سابق جج شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چونکہ اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ ہے اور چار سے 22 اکتوبر تک آرٹیکل 245 بھی نافذ ہے۔ ان دونوں آرٹیکل کے نفاذ کے بعد آزادانہ گھومنے پھرنے کے بنیادی حقوق یا ہائی کورٹ کی رِٹ بھی قابل عمل نہیں رہتی۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان میں کسی مقصد کے پیش نظر لوگوں کو پرامن اجتماع کا حق ہے، لیکن جب کبھی کسی اجتماع میں نقض امن کا خطرہ ہو تو حکومت تعزیرات پاکستان کی دفعہ 144 کے تحت اس قسم کے اجتماع کو ناجائز قرار دے کر روک دیتی ہے اور اس غرض کے لیے حکومت کی طرف سے دفعہ 144 نافذ کی جاتی ہے، جس میں چار لوگوں سے زیادہ لوگ کہیں اکٹھے نہیں ہو سکتے، ڈبل سواری پر پابندی ہوتی ہے اور سکیورٹی روٹس پر آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی ہوتی ہے۔‘

بقول شاہ خاور: ’آرٹیکل 245 کے تحت وزارت داخلہ سکیورٹی خطرات کے پیش نظر فوج کو سول اداروں کی مدد کے لیے طلب کرتی ہے تاکہ امن او امان کی صورت حال کو برقرار رکھا جا سکے۔ فوج بلانے کے فیصلے کو کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور فوج کی موجودگی کے دوران ہونے والے اقدامات کو ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا جبکہ دوسرے معاملات میں ہائی کورٹس کام کرتی رہیں گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’آرٹیکل 245 کے تحت سکیورٹی برقرار رکھنے کے لیے فوج جو بھی اقدامات کرے گی، ان کو بنیادی حقوق کے تحت چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ دفعہ 144 اور آرٹیکل 245 کی موجودگی میں آزادانہ نقل و حرکت کے بنیادی حقوق معطل رہتے ہیں کیونکہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس ہر طرح کی معلومات ہوتی ہیں، جو عام شہری کے علم میں نہیں ہوتیں اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایسے اقدامات کرے جس سے کسی کی جان و مال کو نقصان نہ پہنچے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان