نومبر میں پی آئی اے کی نجکاری کا ارادہ ہے: وزیر خزانہ

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق قومی ایئر لائن کی نجکاری میں تاخیر میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانے اور دلچسپی رکھنے والے فریقوں کی مناسب جانچ پڑتال کی وجہ سے ہوئی۔

پی آئی اے کے طیارے 10 اکتوبر، 2012 کو اسلام آباد کے بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کھڑے ہیں (اے ایف پی/ فاروق نعیم)

پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بدھ کو امید ظاہر کی ہے کہ نومبر میں قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری اور اسلام آباد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی آؤٹ سورسنگ کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔

اس سال کے شروع میں عہدہ سنبھالنے والے محمد اورنگزیب نے واشنگٹن میں عالمی بینک کے صدر دفتر میں اے ایف پی سے بات کی، جہاں وہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور عالمی بینک کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کر رہے ہیں۔

اس سے قبل اپریل میں اے ایف پی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اورنگزیب نے کہا تھا کہ انہیں امید ہے سرکاری ملکیت والی پی آئی اے کی نجکاری جون 2024 تک مکمل ہو جائے گی۔

بدھ کو بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پانچ ماہ کی تاخیر دو عوامل کی وجہ سے ہوئی: میکرو اکنامک استحکام کو یقینی بنانا اور دلچسپی رکھنے والے فریقوں کی مناسب جانچ پڑتال۔

انہوں نے میکرو اکنامک عوامل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی غیر ملکی سرمایہ کار آتا ہے، یا حتیٰ کہ مقامی سرمایہ کار بھی، جو کافی رقم لگانے جا رہا ہے، تو وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اس کی بنیاد موجود ہو۔‘

اورنگزیب نے کہا کہ پی آئی اے اور اسلام آباد ہوائی اڈے کے لیے ممکنہ بولی دہندگان کو بھی جانچ پڑتال کی ضرورت ہے جو تاخیر کی ایک اور وجہ ہے۔

انہوں نے کہا، لہٰذا کابینہ ہی ہے جس نے ٹائم لائن میں توسیع کی منظوری دی تاکہ لوگ یہ درخواستیں جمع کرانے سے پہلے اپنی جانچ پڑتال کرسکیں۔

دیوالیہ ہونے کے قریب

اورنگزیب نے کہا کہ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان موجودہ منافع اور منافع کی ادائیگیوں میں پیچھے تھا اور میکرو اکنامک استحکام پر پیش رفت کے بعد اس کے تدارک کے لیے اقدامات کیے تھے۔

2022 کے تباہ کن سیلاب اور دہائیوں کی بدانتظامی کے ساتھ ساتھ عالمی معاشی بحران کے بعد سیاسی افراتفری کے باعث ملک گذشتہ سال ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔

غیر ملکی زرمبادلہ کو محفوظ رکھنے کے لیے درآمدی پابندیوں سمیت دیگر حکومتی سخت اقدامات کے درمیان مرکزی بینک کی جانب سے بلند شرح سود برقرار رکھنے کے بعد افراط زر کی شرح 38 فیصد تک پہنچ گئی تھی لیکن اس کے بعد یہ سات فیصد سے بھی نیچے آگئی ہے۔

گذشتہ ماہ آئی ایم ایف نے سات ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دی تھی جو 1958 کے بعد پاکستان نے 24 ویں مرتبہ لیا ہے۔

اورنگزیب نے ملک کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور پاکستانی روپے کی قدر کے استحکام پر پیش رفت کا ذکر کیا، جس میں 2020 کے بعد سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 65 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا، ’اس میکرو اکنامک استحکام اور اپنے ذخائے بڑھانے کی وجہ سے مئی اور جون میں ہم نے اپنے موجودہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو دو ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگی کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئی ایم ایف کے مطابق اس وقت پاکستان کا مجموعی سرکاری قرضہ جی ڈی پی کا 69 فیصد یا تقریباً 258 ارب ڈالر ہے۔

انتہائی حد

آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کا انحصار پاکستان کے سرکاری اداروں (ایس او ایز) کی نجکاری کے ساتھ ساتھ اس کی ٹیکس بیس بڑھانے اور ملک کے توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر بھی ہے۔

اے ایف پی (AFP) سے بات کرتے ہوئے اورنگزیب نے کہا کہ تینوں بڑے مسائل میں ایک مشترکہ پہلو ہے۔ ’ٹیکس، بجلی، سرکاری ادارے: ان سب میں چوری، دھوکہ دہی اور کرپشن موجود ہے اور ہمیں ان تمام مسائل کو حل کرنا ہوگا۔‘

لیکن انہوں نے میڈیا کی ان رپورٹس کو مسترد کر دیا جن میں کہا جا رہا تھا کہ حکومت ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے مالی سال کے دوران ٹیکس وصولی میں 29 فیصد اضافہ ہوا، جو سابقہ نگران حکومت کے دور کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا، اور موجودہ مالی سال میں مزید 40 فیصد اضافے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

24 کروڑ سے زیادہ لوگوں کے ملک میں جہاں سب سے زیادہ ملازمتیں غیر رسمی شعبے میں ہیں، 2022 میں صرف 52 لاکھ نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرائے۔

انہوں نے کہا، ’جو لوگ ٹیکس نہیں دے رہے، انہیں اس لیے دینا شروع کرنا ہوگا کہ جو لوگ ٹیکس دے رہے ہیں ان پر مزید بوجھ ڈالنا ناممکن ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’تنخواہ دار طبقہ اور مینوفیکچرنگ انڈسٹری پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ وہ پہلے ہی اپنی حد تک پہنچ چکے ہیں۔‘

انہوں نے ریئل سٹیٹ، ریٹیل، ریٹیل ڈسٹری بیوٹرز اور زراعت کا نام لیتے ہوئے کہا کہ حکومت معیشت کے کچھ شعبوں پر ٹیکس لگانے کے لیے بھی پرعزم ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت