دھی رانی پروگرام: پنجاب حکومت دلہنوں کو خلاف قانون ’جہیز‘ دے گی؟

اجتماعی شادیوں سے متعلق پروگرام کے پورٹل پر درج ہے کہ دلہنوں کو دو لاکھ چھ ہزار روپے کا ’جہیز‘ دیا جائے گا۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ ’شاید ویب سائٹ پر الفاظ کے چناؤ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔‘

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے چند روز قبل اجتماعی شادیوں کے ایک سماجی پروگرام کا اعلان کیا تھا جس میں خدشہ ہے کہ قانون کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔

’پنجاب دھی رانی پروگرام‘ کے تحت صوبائی حکومت دلہنوں کو ’جہیز‘ دے گی، لیکن قانوناً جہیز دینے کی ممانعت ہے۔

اس پروگرام کے تحت ایک پورٹل متعارف کروایا گیا ہے، جس کے لیے رجسٹریشن کی آخری تاریخ پانچ نومبر، 2024 ہے۔

پورٹل پر جائیں تو اس پروگرام کی سبھی تفصیلات بشمول رجسٹریشن فارم دستیاب ہیں۔

پورٹل پر دی گئی تفصیلات کے مطابق پروگرام کے تحت چُنی جانے والی دلہنوں کو دو لاکھ چھ ہزار روپے کا جہیز بھی دیا جائے گا۔ 

پورٹل کے مطابق: ’دھی رانی پروگرام کے سب سے اہم پہلوؤں میں سے ایک دلہن کے لیے جہیز کی فراہمی ہے، جس کی قیمت 206,000 روپے ہے۔

’یہ جہیز جامع ہے اور اس میں نوبیاہتا جوڑے کو اپنی شادی شدہ زندگی آرام سے شروع کرنے میں مدد کرنے کے لیے کئی ضروری اشیا جن میں قرآن پاک، جائے نماز، لکڑی کا ڈبل بیڈ میٹرس کے ساتھ، ایک شیشہ اور ایک ڈنر سیٹ شامل ہیں۔‘

’دھی رانی‘ پروگرام کے تحت اجتماعی شادی میں شامل جوڑوں کو مریم نواز کی جانب سے اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے ایک لاکھ روپے سلامی بھی دی جائے گی، جبکہ ہر جوڑے کے 20 مہمانوں کو کھانا بھی پیش کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ ’جہیز اور دلہن کے تحائف کی پابندی ایکٹ 1976‘ کے سیکشن تین کے مطابق شادی کے موقعے پر دلہن کو جہیز دینے کی ممانعت ہے۔

اس حوالے سے ایڈوکیٹ احمر مجید کا کہنا تھا: ’یہ 1976 کا قانون ہے جو جہیز اور شادی پر دیے جانے والے تحائف کی ممانعت کرتا ہے، البتہ دلہن کو صرف پانچ ہزار روپے مالیت کا جہیز یا تحائف دیے جا سکتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس کے سب سیکشنز میں لکھا ہے کہ کوئی بتائی گئی مالیت کا جہیز یا دلہن کے لیے تحائف نکاح سے چھ ماہ قبل یا نکاح کے ایک ماہ بعد تک نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی کوئی شخص جہیز لینے یا دینے کے کسی معاہدے کو طے کر سکتا ہے۔ ایسا کرنے والے کو چھ ماہ سزا اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔‘

پنجاب سوشل ویلفیئر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) خواجہ محمد سکندر ذیشان نے کہا کہ ویب سائٹ پر جہیز کی مد میں جو کچھ دیا جا رہا ہے وہ پنجاب حکومت کی جانب سے تحائف کے زمرے میں آتا ہے۔

’شاید ویب سائٹ پر الفاظ کے چناؤ کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔‘

دھی رانی پروگرام کے لیے بنائے گئے پورٹل  پر یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ وہاں دلہن کے لیے قرآن اور جائے نماز کے تحائف کا ذکر ہے جبکہ اقلیتی برادری کی دلہنوں کا کوئی ذکر نہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کے اس سوال پر کہ ’کیا صرف مسلمان خاندان ہی اس پرو گرام کے لیے رجسٹریشن کروا سکتے ہیں؟‘ ڈی جی سوشل ویلفیئر کا کہنا تھا: ’اس میں کوئی قدغن نہیں کہ اس میں اقلیتیں درخواست نہیں دے سکتیں لیکن چونکہ اس کو دینی فریضہ سمجھ کر کیا جا رہا ہے اس لیے قرآن پاک اور جائے نماز کا تحفہ رکھا گیا ہے، لیکن اس کے علاوہ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی بچیاں بھی رجسٹر ہو سکتی ہیں۔‘

پروگرام ہے کیا اور رجسٹریشن کا طریقہ کار کیا ہو گا؟

ڈی جی پنجاب سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ خواجہ محمد سکندر ذیشان نے بتایا: ’اس پروگرام کا مقصد مستحق والدین کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ اپنی سماجی اور مذہبی ذمہ داری کو باوقار طریقے سے ادا کر سکیں۔

’حکومت اس پروگرام کے تحت غریب اور مستحق بچیوں کی اجتماعی شادیاں کروائی گی، اس کے لیے ہم نے ایک آن لائن پورٹل ڈیزائن کیا ہے جس پر موجود فارم کو دلہن، اس کے والدین یا اس کے گارڈین درخواست دے سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پورٹل پر موجود رجسٹریشن فارم کافی آسان ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کون رجسٹر ہو سکتا ہے اور اس پروگرام کے تحت رجسٹر ہونے والی ’دھی رانی‘ کو حکومت سے کیا کچھ ملے گا۔

ویب سائٹ کے مطابق: ’یہ پروگرام ان لڑکیوں کے لیے ہے جو بے سہارا، یتیم، PWD پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ میں کام کرنے والوں کی بیٹیاں ہیں اور جن کی عمر 18 سے 40 سال کے درمیان ہے۔

رجسٹریشن کے لیے درخواست والد، والدہ، دلہن کے سرپرست، یا دلہن خود جمع کروا سکتی ہیں۔ درخواست جمع کروانے والے کا پنجاب کا رہائشی ہونا ضروری ہے۔‘

ڈی جی ویلفیئر کے مطابق: ’اگر کوئی فارم سمجھنے یا پر کرنے سے قاصر ہے تو وہ ہماری ہیلپ لائن 1312 پر رابطہ کرے یا اضلاع میں سوشل ویلفیئر کے ڈپٹی ڈائریکٹرز کے دفاتر میں بنے ہیلپ ڈیسک پر جا کر اپنا فارم پر کروا سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر ہم درخواستیں موصول کر رہے ہیں جب یہ عمل ختم ہو گا تو جتنی درخواستیں آئیں گی ان کی تصدیق کا عمل شروع کیا جائے گا، جس میں ہماری شرط یہ ہے کہ درخواست دینے والے کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہو۔

’تصدیق کے بعد سارا ڈیٹا ہماری صوبائی سٹیئرنگ کمیٹیز کے پاس آ جائے گا جو ہمیں متعلقہ کمشنرز بھیجیں گے۔ ظاہری بات ہے کہ اگر درخواستیں تعداد میں زیادہ ہوں گی تو بیلٹنگ کا عمل ہو گا اور اس کے ذریعے تین ہزار جوڑوں کو چنا جائے گا جن کی اجتماعی شادیاں کروائی جائیں اور شادیوں کی تقریبات متعلقہ ڈویژنز یا ضلع میں رکھی جائیں گی یعنی اگر ایک ضلع سے 20 خاندان ہیں جن کی اجتماعی شادیاں ہونی ہیں تو متعلقہ ضلع میں ان اجتماعی شادیوں کا انعقاد کیا جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا تصدیقی عمل میں متعلقہ اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں سپیشل برانچ، لوکل گورنمنٹ اور سوشل ویلفیئر کے لوگ شامل ہیں۔

’یہ لوگ اس بات کی تصدیق کریں گے جس نے درخواست دی ان کی واقعی میں شادی ہو رہی ہے اور یہ مستحق ہیں اور پنجاب کے شہری ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’یہ حکومت کی سکیم ہے اور ہو سکتا ہے بیلٹنگ میں ہم تین کی بجائے پانچ ہزار جوڑے لے لیں اور یہ ایک مسلسل عمل ہو گا اور ہر سال یہ سکیم آئے گی۔

’حکومت کی کوشش ہو گی کہ سال میں ایک یا دو بار اس عمل کو دہرایا جائے چونکہ مستحقین کی تعداد بہت زیادہ ہے اس لیے ہم چاہیں گے کہ سبھی مستحق لوگوں کو فائدہ پہنچا سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین