نیوزی لینڈ سے ہوم سیریز میں شکست، انڈین ٹیم کے دعوے غلط

انڈیا کے صنعتی شہر پونے میں دوسرے ٹیسٹ میچ میں جس طرح انڈین بیٹنگ نے بدترین نمونہ پیش کیا، وہ شاید دور حاضر میں کسی صف اول کی ٹیم میں شاذ و نادر ہی نظر آئے۔

نیوزی لینڈ کے کپتان ٹام لیتھم (بائیں) 26 اکتوبر 2024 کو پونے کے مہاراشٹر کرکٹ ایسوسی ایشن سٹیڈیم میں انڈیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرے ٹیسٹ کرکٹ میچ کے تیسرے دن کے اختتام پر اپنی ٹیم کی جیت کے بعد اپنے انڈین ہم منصب روہت شرما سے مصافحہ کرتے ہوئے (پونیت پرانجپے / اے ایف پی)

نیوزی لینڈ کے خلاف انڈیا کے اپنے ہی گراؤنڈز پر یکطرفہ شکستوں نے ایک ایسی بیٹنگ کے مستقبل اور مستقل مزاجی پر سوال کھڑے کر دیے ہیں، جو عرصہ دراز سے دنیا کی بہترین بیٹنگ لائن سمجھی جاتی تھی اور اپنے ہوم گراؤنڈز کے علاوہ بیرون ملک بھی بہت عمدہ کارکردگی دکھاتی تھی۔

انڈیا کے صنعتی شہر پونے میں دوسرے ٹیسٹ میچ میں جس طرح انڈین بیٹنگ نے بدترین نمونہ پیش کیا، وہ شاید دور حاضر میں کسی صف اول کی ٹیم میں شاذ و نادر ہی نظر آئے۔

انڈین ٹیم ایک میچ کے خسارے سے جب پونے ٹیسٹ میں پہنچی تو میچ سے قبل کپتان روہت شرما اور ہیڈ کوچ گوتم گھمبیر نے بلندوبانگ دعوے کیے تھے۔ انہوں نے بنگلور میں پہلے ٹیسٹ کی شکست کو غیر متوقع قرار دے کر اپنی روایتی کارکردگی کا دعویٰ کیا تھا لیکن ان کے سارے دعوے غلط ثابت ہوگئے۔

ایک دن خراب ہونے کا دعویٰ کرنے والے روہت شرما کے لیے دوسرے ٹیسٹ کے تینوں دن ہی خراب رہے۔ 

پہلے دن نیوزی لینڈ نے جب اپنی پہلی اننگز میں 259 رنز بنائے تو سب کو اندازہ ہوگیا کہ انڈین بولنگ میں کہیں کچھ کمی ہے لیکن بیٹنگ کی تباہی نے بولنگ کا غم بھلا دیا اور ایک آسان اور سیدھی پچ پر انڈین بیٹنگ تماشا بن گئی۔ اگرچہ آف سپنر واشنگٹن سندر نے سات وکٹیں لے کر کچھ کچھ خبردار کردیا تھا کہ پچ میں کہیں کہیں ڈبل باؤنس ہے، لیکن انڈین بلے باز اپنی عادت سے مجبور یا پھر پرانی فتوحات کے نشے میں اسے نظر انداز کرگئے۔

مچل سارٹنر ایک اچھے لیفٹ آرم سپنر ہیں لیکن ان کے پاس نہ بریک ہے اور نہ ٹرن، بلکہ وہ زیادہ آرم بولنگ پر بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ تیز گیند کرتے ہیں اور بلے باز کو باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان کے ساتھ کوئی اچھا سپنر نہیں تھا۔ اعجاز پٹیل دوسرے لیفٹ آرم تھے لیکن ان میں وہ بات نہیں ہے۔ اس صورت حال میں سارٹنر نے گلین فلپس جیسے جزوقتی بولر کے ساتھ وہ کام کر دکھایا کہ انڈیا کے ایک ارب عوام انگشت بدنداں ہوگئے۔ پہلی اننگز میں انڈین بیٹنگ کو 156 رنز پر نمٹانے میں سارٹنر پیش پیش تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پہلی اننگز میں سات وکٹ اور دوسری میں چھ وکٹ لے کر انہوں نے تاریخ میں پہلی بار انڈیا کے خلاف انڈیا میں ہی سیریز جیت لی۔ سارٹنر نے کیریئر کی بہترین بولنگ کرتے ہوئے میچ میں 13 وکٹیں لے کر اپنی اہلیت ثابت کر دی۔

انڈین ٹیم کو کیا ہوگیا؟ یہ جملہ چند ہفتوں قبل کیون پیٹرسن نے کہا تھا۔ فرق یہ تھا کہ اس میں انڈیا کی جگہ پاکستان تھا جو بنگلہ دیش سے سیریز ہار گیا تھا۔ انڈین میڈیا اور کرکٹ ناقدین نے اس جملے سے پاکستان کی اس قدر ٹرولنگ کی تھی کہ لوگ پاکستانی ٹیم کو چوتھے درجے کی ٹیم کہہ رہے تھے۔

لیکن پیٹرسن کا یہ جملہ اب انڈیا کے لیے وجہ شہرت بن جائے گا، جس کی بیٹنگ اور بولنگ تیزی سے زوال پذیر ہے۔ بیٹنگ کے اصل رہبر ویراٹ کوہلی اور روہت شرما ٹیم پر بوجھ بن گئے ہیں۔

روہت نے گذشتہ آٹھ اننگز میں 108 ربز بنائے ہیں جبکہ کوہلی ایک نصف سنچری بنا سکے ہیں، جو ٹیم کے لیے کچھ نہ کرسکی۔  ٹیم کی بیٹنگ کا حال یہ ہے کہ رشبھ پنٹ جیسے بلے باز پانچویں نمبر پر کھیل رہے ہیں، جس پر کبھی لکشمن اور گنگولی جیسے کھلاڑی کھیلا کرتے تھے۔

نو آموز سرفراز خان اور جیسوال نے کسی حد تک اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن دونوں ایک دو اننگز سے آگے نہیں بڑھے ہیں۔ آل راؤنڈرز کی بھرمار نے ٹیم کا توازن بگاڑ دیا ہے۔ ٹیسٹ میچ کی بیٹنگ کا تقاضہ ہے کہ چھٹے نمبر تک باقاعدہ بلے باز ہوں لیکن انڈیا کچھ اور ہی کر رہا ہے۔ بیٹنگ کی ناکامی یہ ہے کہ ٹیم پہلے ٹیسٹ میں 46 رنز پر آؤٹ ہوجاتی ہے اور بولنگ کی ناکامی یہ ہے کہ جس پچ پر سارٹنر 13 وکٹیں لیتے ہیں، اس پر ایشون اور جدیجا ناکام ہیں۔

لیکن ان سب سے بالاتر روہت شرما اور ویراٹ کوہلی کا کردار ہے۔ دونوں بلے بازوں کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ متعدد زبردست اننگز ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ یہ جیت کے معمار بھی رہے ہیں۔ ان کے سامنے ہر بولر کو پریشان دیکھا ہے۔ لیکن دونوں نے اس سیریز میں بے حد مایوس کیا ہے۔ جب ٹیم کو ان سے بڑی اننگز کی امید تھی، دونوں بہت معمولی انداز میں ایسی گیندوں پر آؤٹ ہوئے جہاں وہ آسانی سے کھیل سکتے تھے۔

دونوں کی لاپروائی اور توجہ کی کمی نے ٹیم کا توازن تو ختم کیا لیکن مایوس بھی کر دیا۔ انڈیا پہلا ٹیسٹ کچھ عزت سے اگر ہاری تھی تو وہ سرفراز خان کی سینچری تھی، ورنہ ٹیم کے باقی کھلاڑی تو محض تماشائی تھے۔

چند دن قبل پاکستان کی شکستوں پر جشن منانے والے انڈین فینز اب سمجھ نہیں پا رہے کہ اپنی ٹیم کو کیا سمجھیں۔

ہوم سیریز میں شکست

یہ انڈیا کی 12 سال بعد ہوم سیریز میں شکست ہے اور انڈیا نے اب تک تین ہوم سیریز میں شکست کا سامنا کیا ہے۔

اس کے بعد انڈین ٹیم نے ہوم سیریز میں کسی بھی ٹیم کو حاوی نہیں ہونے دیا، لیکن رواں سیریز میں نیوزی لینڈ کے خلاف شکست غیر متوقع اور ناقابل برداشت ہے کیونکہ انڈین ٹیم ہر طرح سے نیوزی لینڈ بہتر ہے۔

کین ولیمسن کی غیر موجودگی میں کیوی ٹیم نے شاندار کارکردگی دکھائی اور ایک ایسی ٹیم کو شکست دی جو حال ہی میں ورلڈ چیمپیئن بنی ہے۔ جس نے ٹیسٹ ورلڈ چیمپیئن شپ کا فائنل کھیلا اور آئی سی سی رینکنگ میں سر فہرست ہے۔

سیریز کا تیسرا ٹیسٹ ابھی ممبئی میں باقی ہے لیکن یہ سیریز نیوزی لینڈ کے نام ہوچکی ہے۔ اس سیریز کی شکست کے اثرات اگلے ماہ آسٹریلیا کے دورہ پر بھی پڑیں گے۔

آسٹریلیا کے خلاف سیریز بورڈر گواسکر ٹرافی کے نام سے ہے، جو دو مرتبہ انڈیا مسلسل جیت چکا ہے۔ اب تیسری دفعہ وہ آسٹریلیا میں ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب ٹیم شکستوں کے بوجھ تلے دب گئی ہے۔ مداح غصے سے پاگل ہو رہے ہیں اور کھلاڑی مایوس ہیں۔ جب بڑے کھلاڑی کچھ نہیں کر رہے تو جونیئرز کیا کریں۔ 

نیوزی لینڈ کی ٹیم جو بہت سے جونیئرز کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل رہی ہے، اس کی حالیہ کارکردگی نے ایک بات واضح کردی ہے کہ انڈین ٹیم کو اس کے ہوم گراؤنڈز پر بھی شکست دی جاسکتی ہے، اگر ٹیم مکمل توجہ اور انہماک سے کھیلے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ