ایک چھوٹی سی خبر تھی کہ کامیڈین راج پال یادیو نے فلم ’اتا پتا لاپتا‘ بنانے کے لیے جو قرض لیا تھا، اس کی ادائیگی نہ کرنے پر انہیں حوالات کی ہوا کھلا دی گئی۔
پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ راج پال یادیو کی جائیداد بھی قرض کی عدم ادائیگی پر انڈین سرکار نے ضبط کرلی ہے۔ یہ ایک ایسےکامیڈین کی دکھ بھری بپتا ہے، جو ایک عرصے سے انڈین فلموں میں اپنی بے ساختہ اداکاری سے ہر ایک کے چہرے پر بہار لے آتا، لیکن حالیہ دنوں میں صرف راج پال یادیو ہی نہیں، باقاعدہ طور پر کامیڈین تسلیم کیے جانے والے دیگر فنکار بھی مالی پریشانی سے دوچار ہیں۔
وجہ صرف یہ ہے کہ اب ان کامیڈین کی فلم سازوں کو ضرورت نہیں رہی اور کیوں نہیں رہی؟ اس کی ٹھوس دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب ہیرو ہی کامیڈی کر رہے ہیں تو پھر الگ سےکسی کامیڈین کی خدمات کیوں حاصل کی جائیں۔
بالی وڈ کا ہیرو کامیڈی بھی کر سکتا ہے، وقت ضرورت پر مار دھاڑ اور ایکشن دکھا سکتا ہے اور ہیروئن کے ساتھ تو رومانس تو اس کے انگ انگ میں بسا ہے۔ اب یہ سارے کام ایک معصوم سا کامیڈین تو کرنے سے رہا، اسی لیے کامیڈی سے مزین سکرپٹ میں ضروری نہیں کہ ہیرو کامیڈین ہی لیا جائے۔
عام طور پر کسی بھی فلم میں ہیرو، ہیروئن، ولن یا پھر ظالم سماج ہوتا ہے۔ فلم کے بوجھل لمحات کا اثر کم کرنے کے لیے کامیڈین کی خدمات حاصل کی جاتیں، جو عموماً ہیرو کا دوست یا پھر گھر کا ملازم بھی ہوتا۔ جہاں فلم میں جذباتی، المیہ یا پھر سنجیدگی سے بھرے مناظر آتے، وہیں کامیڈین کے پردہ سیمیں پر آنے سے فلم بین سب کچھ بھول بھال کر ان کی اوٹ پٹانگ حرکتوں اور مکالمات پر لوٹ پوٹ ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کئی تو جیسے اپنی بھاری بھرکم جسامت کی وجہ سے کچھ نہ کہہ کر بھی ہنسنے کا موقع دیتے، جیسے پاکستان میں ننھا اور انڈیا میں ٹن ٹن تھیں۔ یعقوب، محمود، جانی واکر، کیسٹو مکرجی، اسرانی، مقری، آئی ایس جوہر، اوم پرکاش، اپتل دت اور جگدیپ ایک زمانے میں اپنی کامیڈی سے راج کرتے رہے، جن کے ادا کیے ہوئے مکالمات اور انداز آج تک ذہنوں میں نقش ہیں۔
پھر وہ دور بھی آیا جب شکتی کپور، قادر خان، جانی لیور، پاریش راول، ستیش کوشک اور انوپم کھیر نے فلموں کے سنجیدہ لمحات سے تھکے ذہنوں کو اپنی بے ساختہ اور برجستہ کامیڈی سے بھرپور تفریح دی۔ ہر دور میں مکمل طور پر کامیڈی سے آراستہ فلمیں بھی بنیں، جن میں کامیڈین ہی ہیروز ہوتے، بلکہ ایک وقت وہ بھی تھا جب شکتی کپور، قادر خان اور ارونا ایرانی کی مثلث پر کئی بہترین مزاحیہ تخلیقات منظر عام پر آئیں۔
وقت نے کروٹ لی تو فلم سازوں اور ہدایت کاروں کے سوچنے کے انداز بھی بدلے، جنہوں نے کامیڈین والا کام ہیرو سے لینا شروع کر دیا۔ اس سلسلے میں گووندا نے پہل کی لیکن ان کے ساتھ پھر بھی مزاحیہ اداکاروں کی ایک فوج ظفرِ موج دیکھنے کو ملی۔ ہدایت کار پریا درشن اور ڈیوڈ دھوان نے ہیروز کو کامیڈین بنانے میں اپنا حصہ بہترین انداز میں ڈالا۔
آہستہ آہستہ کامیڈین کا بوجھ بھی ہیروز پر ڈال دیا گیا۔ فلموں سے کمالِ مہارت سے طے شدہ کامیڈین کا حصہ کم سے کم ہوتا گیا، اب ان کے نصیب میں ایک یا دو مناظر ہی لکھے ہوتے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ پیشہ ور کامیڈین کی موجودگی فلم میں آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ اب راج پال یادیو، جونی لیور، وجے راز یا سنجے مشرا فلموں میں کہیں نہ کہیں دکھائی تو دیتے ہیں لیکن ہیروز جب خود بھرپور کامیڈی کر رہے ہوں تو یہ ان کے سامنے بس پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔
اکشےکمار، سنجے دت، سنیل شیٹی، راج کمار یادیو، آیوشمان کھرانہ، ورن دھوان، اجے دیوگن یا کارتھک آریان ہیں تو ہیروز لیکن یہ کامیڈین بے چاروں کی نوکریاں کھا گئے ہیں۔ ایک نگاہ ڈالیں چند فلموں پر جن میں یہ سب ہیروز تھے۔ جیسے ’بھول بھلیاں‘، ’منا بھائی‘، ’ہیرا پھیری‘، ’شادی میں ضرور آنا‘، ’فکرے‘، ’بریلی کی برفی‘، ’بدھائی ہو بدھائی‘، ’قلی نمبر ون‘، ’دھمال‘، ’جڑواں‘، ’گول مال‘، ’ہاؤس فل‘ یا پھر حال ہی میں کمائی کے نئے ریکارڈ بنانے والی ’استری 2‘ جس میں ہیرو راج کمار یادیو ہر منظر میں کامیڈین ذیادہ محسوس ہوئے۔ کچھ ایسا ہی حال یکم نومبر کو نمائش پذیر ہونے والی ’بھول بھلیاں 3‘ میں کارتھک آریان کے کردار کو دیکھ کر ہوتا ہے۔
بڑا عجیب لگتا ہے کہ جب یہی اداکار پھر کسی اور فلم میں سنجیدہ روپ میں نظر آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ انہیں ہیرو شمار کریں کہ کامیڈین؟ مثلاً ’مرزا پور‘ میں قالین بھیا یعنی پنکج ترپاتھی کے غیظ و غضب سے کوئی بچ نہیں پاتا، لیکن اگلے ہی لمحے جب آپ انہیں ’استری 2‘ میں مزاحیہ انداز میں دیکھتے ہیں تو خود شش و پنج میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انہیں بطور اداکار کس خانے میں فٹ کریں۔
المیہ تو یہ بھی ہے کہ کچھ باقاعدہ کامیڈین فلموں میں اپنے مختصر ہوتے کرداروں سے ایسے دل برداشتہ ہوئے کہ فلموں سے ہی دور ہوگئے، ان میں انو کپور، وینائے پاتھک، ستیش شاہ اور شکتی کپورکے نام نمایاں ہیں۔
یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آخر ہیروز سے ہی کامیڈین والا کام کیوں لیا جا رہا ہے؟ اس سلسلے میں فلم تجزیہ کاروں کا ماننا ہےکہ ان دنوں کہانیوں کا فقدان ہے، ایسے میں ہیروز کو کامیڈین کی ذمے داری دے کر فلم ساز اور ہدایت کار یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ کہانی نہیں ہے تو کیا ہوا، کامیڈی کا تڑکا لگی اداکاری سے انہیں منافع کے ساتھ اپنا لگایا گیا سرمایہ آسانی کے ساتھ مل جائے گا۔
پھر انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہیروز کی اپنی ’فین فالونگ‘ ہے جو ان کی اداکاری دیکھنے کے لیے ضرور سینیما گھروں کا رخ کرے گی، جبھی مالی فائدہ تو ہوگا۔ اب یہ سہولت کامیڈین کو تو حاصل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سارے معاملے میں نقصان طے شدہ کامیڈین کو ہو رہا ہے۔ جبھی راج پال یادیو جیسے کامیڈین کسی فلم کے لیے سرمایہ کاری کرتے ہیں تو ہیروز کے نہ ہونے پر انہیں مالی خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔
المیہ تو یہ بھی ہے کہ راج پال یادیو یا جونی لیور جیسے کامیڈین اب گھر کی گاڑی کھینچنے کے لیے سنجیدہ اداکاری کرنے تک پر مجبور ہیں۔ جیسے راج پال یادیو نے رواں سال سماجی اور سنجیدہ موضوع کی ’کام چالو ہے‘ جبکہ جونی لیور نے ’لنترانی‘ میں کام کیا۔ ان بے چاروں کے ساتھ مجبوری یہ بھی ہے کہ یہ ویب سیریز میں بھی کام نہیں کرسکتے کیونکہ وہاں تو صرف اور صرف مار دھاڑ اور ایکشن ہی ہوتا ہے۔ اب ایسی صورت حال میں ان کامیڈین کی جائیدادیں ضبط تو ہونی ہی ہیں۔