وادی شغر تھنگ: مستقبل کی سیاحت اور ترقی کا دروازہ

جل گاؤں (ژھوق) سے آہستہ آہستہ وادی کی سطح زمین بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور سفر کرنے والوں کو برف اور گلیشیئر سے پگھل کر آنے والی ایک بڑی ندی کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔

یہ شغر تھنگ وادی ہے جو دراصل دو بڑے گاؤں استکچن، شغر تھنگ اور دو چھوٹے چھوٹے گاؤں میژیق اور بلچو پر مشتمل ہے (تصاویر: عاشق فراز)

بظاہر دور افتادہ، سردیوں میں یخ بستہ اور غالباً بلتستان کا واحد علاقہ جو آج بھی بجلی کی سہولت سے محروم ہے لیکن قدرتی حسن اور جغرافیائی اہمیت کے اعتبار سے پہلے بھی اہم تھا اور اب تو یہ اور زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

یہ شغر تھنگ وادی ہے جو دراصل دو بڑے گاؤں استکچن، شغر تھنگ اور دو چھوٹے چھوٹے گاؤں میژیق اور بلچو پر مشتمل ہے۔ اگرچہ جل گاؤں (ژھوق) بھی اسی وادی کا حصہ ہے لیکن کچورا سے نزدیک ہونے کی وجہ سے یہ کچورا کے ساتھ انتظامی طور پر جڑا ہوا ہے۔

کچورا شنگریلا سے ہوتے ہوئے ایک ٹیڑھی میڑھی سڑک اپر کچورا کے مختصر سے بازار کے بعد دو شاخہ ہو جاتی ہے۔ ایک اپر کچورا جھیل کی طرف جاتی ہے جبکہ دوسری شاخ بازار کے ابتدا ہی سے بائیں طرف مڑتی ہے اور جل گاؤں (ژھوق) کی طرف نکلتی ہے۔

جل گاؤں ژھوق سے شغر تھنگ پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ علاقہ بہت خوبصورت مگر اس کی ترقی کے لیے نہ تو کسی کونسلر نے کوئی خاص دلچسپی لی اور نہ ہی حکومتی اداروں کی توجہ مبذول ہوئی لہذا نہ راستہ اور نہ بجلی جب کہ بلتستان کے دیگر دور افتادہ علاقوں گلتری، گنوخ اور ارندو تک بجلی پہنچ گئی ہے۔

آغا خان کے ادارے AKRSP نے کئی سال پہلے ایک کچی سڑک تعمیر کی تھی، یہ شغر تھنگ کو سکردو سے ملانے کا واحد ذریعہ تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خستہ حالی کا شکار تھی۔

جل گاؤں (ژھوق) سے آہستہ آہستہ وادی کی سطح زمین بلند ہونا شروع ہوتی ہے اور سفر کرنے والوں کو برف اور گلیشیئر سے پگھل کر آنے والی ایک بڑی ندی کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ ندی کا پانی پتھروں سے سر پٹکتا، اچھلتا کودتا بہتا ہے تو اس کی رنگت بلکل سفید ہو جاتی ہے۔

مستنصر حسین تارڑ نے اپنی ایک کتاب میں دیوسائی کی بلندیوں سے آنے والے اسی طرح کے پانی کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ سادہ پانی نہیں بلکہ دودھ کی نہریں ہیں۔

اب شغر تھنگ کی اس دودھ والی نہر کو جدید برقیاتی مشینوں میں بلو کر دودھیائی بجلی پیدا کرنے کے دو منصوبے شروع ہوگئے ہیں۔

وادی کا پہلا گاؤں استکچن ہے یہ برفانی ندی اور متصل پہاڑی سلسلے کے درمیان واقع چھوٹا سا گاؤں ہے۔ بلندی کی وجہ سے زمین یک فصلی ہے اور کھیتی باڑی دیر سے شروع ہوتی ہے۔ مکانات مٹی، گارے اور لکڑی کی شہتیروں کو جوڑ کر بنائے گئے ہیں اور قدیم طرز تعمیر کی عمدہ نشانیوں میں سے ایک ہیں۔

ستائیس ستمبر 2024 کو جب ہم دوست وہاں پہنچے تو کھیت کھلیان کا اختتامی مرحلہ تھا، چراگاہوں اور سبزہ زاروں سے گھاس کاٹ کاٹ کر اسے چھتوں کے اوپر مخصوص طریقے سے محفوظ کیا جارہا تھا۔ گھاس کو دائروی انداز میں سردیوں کے لیے جمع رکھنے کو شنا زبان میں گاٹوو اور بلتی میں کاڑو کہا جاتا ہے۔

بڑے مال مویشی اور بھیڑ بکریاں بلند چراگاہوں سے اتار کر نیچے گاؤں میں لایا گیا تھا جو گاؤں کے کھیتوں کے کنارے مزے سے چر رہیں تھیں۔

گو کہ بہار کا موسم رخصت ہو چکا ہے مگر شغر تھنگ وادی کے در و دیوار سبزہ و گل سے ابھی تک مشک بو تھے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود سبزہ زار ارغوانی رنگ اوڑھے عجب شان دیکھا رہا تھا جبکہ گاؤں کی زمین پر پھیلا مخملی سبزہ ابھی بدلا نہیں تھا۔ گاؤں اور لوگوں کی سادگی، اپنایت اور خلوص میں وہی مٹھاس باقی ہے جو صدیوں سے چلی آرہی ہے۔

قدیم ایام میں یہ اہم گذرگاہ تھی پھر راستے کہیں اور سے بنے اور یہ چھپے موتی کی طرح پڑا ریا۔ وقت نے کروٹ لی اور صدیوں بعد پھر شغر تھنگ اپنی آب و تاب کی طرف لوٹ رہا ہے۔ وہ اس لئے کہ سکردو، استور اور آزاد کشمیر سے ہوتی ہوئی راولپنڈی کے لئے یہاں سے ایک شاہراہِ کی تعمیر زیر غور ہے۔ علاؤہ ازیں دو بڑے بجلی گھروں کی تعمیر پر تو ابھی کام تیزی سے شروع ہوا ہے۔

استکچن گاؤں کے بزرگوں سے گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہاں کی مختصر ابادی سات خاندانوں پر بٹی ہوئی ہے جن میں دو قبیلے مشہور مچوک خاندان کی شاخ سے ہیں۔ استکچن گاؤں کے تمام خاندان اپنا سلسلہ نسب چلاس سے جوڑتے ہیں۔

استکچن کے بعد دریا کے دونوں جانب دو چھوٹے چھوٹے گاؤں میژیق اور بلچو ہیں۔ میژیق میں اس وقت صرف چھ گھر ہیں جبکہ دریا کے دوسری طرف بلچو میں پندرہ کے قریب گھر موجود ہیں۔ ان دونوں کی آبادی دو خاندانوں پر منقسم ہے ایک اخون پا ہے جسے غاسنگ پا بھی کہتے ہیں ان کے باپ دادا کھرمنگ سے آئے ہیں اور بمطابق ان کو آباد ہوئے تین یا چار پشت ہوتے ہیں۔ جبکہ بلچو میں بھی اخون پا قبیلے کے چھ گھر اور ژاڑاپا  کے دس سے زیادہ گھر ہیں۔

میژیق اور بلچو سے ہوتا ہو جو دریائے نیچے کچورا اور دریائے سندھ تک پہنچتا ہے وہ دراصل تین ندی نالوں کا مشترکہ پانی ہے۔ ایک ندی اس درہ سے آتی ہے جو استور کی طرف نکلتا ہے دوسری اور تیسری ندی دیوسائی کو جانے والے دو دروں کی طرف سے آتی ہیں ۔ ان تین دروں نے شغر تھنگ گاؤں کو بیضوی انداز میں گھیر رکھا ہے۔

شغر تھنگ گاؤں بارہ ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع ہے اور یہ دو محلہ جات گوما شغرتھنگ اور گمبہ شغر تھنگ پر مشتمل ہے۔ شغر تھنگ کا گاؤں مسطح اور وسیع ہے گاؤں کے ساتھ ساتھ لگی ہوئی چراگاہیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں اور حد نگاہ سبزہ ذار اور جنگلی پھول بوٹے نظر آتے ہیں۔ زیادہ بلندی کی وجہ سے شغر تھنگ میں پھلوں کے درخت نہیں ہیں تاہم بید اور جونیپر کے پودے پائے جاتے ہیں۔ گھروں کی تعمیر اسی انداز کی ہے جو میژیق ، بلچو اور استکچن گاؤں کے گھروں کی ہے۔

دیوسائی اور استور نکلنے والے درے شغر تھنگ سے شروع ہوتے ہیں جبکہ ایک اور درہ بھی دیوسائی کے رخ پر ہے لیکن شاید دشوار گزار ہے۔

شغر تھنگ سے جو راستہ استور کو جاتا ہے  وہ شغرتھنگ سے دو گھنٹے کے فاصلے کے بعد مزید دو دروں میں منقسم ہوتا ہے۔ ایک درہ بانک پاس (Banak paas) اور دوسرا عالم پی پاس  (Alampi pass) ہے دونوں درے ضلع استور سے منسلک ہیں۔ یہ دونوں درے زمانہ قدیم سے آمد و رفت کا بڑا ذریعہ تھے جو امتداد زمانہ کے ہاتھوں متروک ہوچکے تھے ، تاہم مہم جو سیاحوں کے لئے اسی طرح پرکشش رہے ہیں جس طرح شروع میں تھے۔ 

شغر تھنگ سے ایک درہ داری لا کے نام سے شمال مغرب کی سمت دیوسائی کی طرف جاتا ہے اور اس کے ذریعے دیوسائی علی ملک ٹاپ پر پہنچا جاسکتا ہے۔

شغر تھنگ کے Alampi پاس کے راستے بلتستان میں پہلا یورپی سیاح G.T Vigne استور نکلا ہے اور اسی راستے سے 1948 میں جنگ آزادی کے دوران استور سے توپیں لائی گئی جو کھرپوچو قلعے کو فتح کرنے کا باعث بنیں۔

نئی سڑک کی تعمیر ۔۔۔۔ سیاحت اور معشیت

شغر تھنگ سے استور گوریکوٹ اور پھر شونٹر پاس سے مظفرآباد اور پھر راولپنڈی اسلام آباد تک ایک نئی سڑک کی منظوری مل چکی ہے۔ اس کا کل فاصلہ ۔۔۔۔۔ کلومیٹر بتایا جاتا ہے جس میں غالباً شونٹر پاس میں ٹنل بھی بننی ہیں۔ اس راستے سے مجوزہ تخمینہ کے مطابق بارہ سے چودہ گھنٹے لگیں گے۔

بلتستان سے راولپنڈی اسلام آباد جانے کے لئے موجودہ مروجہ راستہ جگلوٹ، کوہستان ایبٹ آباد سے ہوتا ہوا راولپنڈی جاتا ہے اس کی کل لمبائی غالباً 855 کلومیٹر ہے۔ اس راستے کے ذریعے راولپنڈی پہنچنے میں تقریباً بیس گھنٹے کا وقت لگتا ہے جس کی ایک بڑی وجہ زیادہ فاصلہ اور سڑک کی خرابی رہی ہے، خیر اب اس کی بحالی کا کام بھی ہورہا ہے۔

بلتستان ایڈونچر اور کلچرل ٹوارزم کے حوالے سے جنت نظیر ہے اور یہاں کے بلند وبالا پہاڑوں اور تہذیبی ورثہ کی کشش میں سیاحوں اور کوہ پیماؤں کا تانتا بندھا رہتا یے۔

مزید پڑھیے

گذشتہ چند سالوں سے ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے نیز سڑکوں کی بہتری اور ہوائی جہازوں کی آمد و رفت بڑھنے کی وجہ سیاحت اور کاروباری سرگرمیوں میں یکدم تیزی آئی ھے۔

شغر تھنگ روڈ کی تعمیر سے نہ صرف گلگت ، استور اور بلتستان کے لوگوں کو راولپنڈی اور دیگر شہروں کی طرف سفر کرنے کے لئے ایک متبادل سہولت حاصل ہوگی بلکہ سیاحت سے منسلک کاروبار میں بھی بہت بڑا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔

سیاحت کا فروغ اس حوالے سے بھی زیادہ ممکن ہے کہ اس راستے کے ذریعے تین بڑے علاقے جو خوبصورتی ، قدرتی مناظر اور عظیم پہاڑی سلسلوں کے اطراف میں واقع ہیں وہ اپس میں مربوط طریقے سے جڑ جائیں گئے۔ ان علاقوں کی قدیم دور میں بھی اسی راستے کے ذریعے منسلک رہنے کی تاریخ موجود ہے یوں اس نو تعمیر راستے کی تاریخی اہمیت بھی سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

یوں دیکھا جائے تو سیاح مظفر آباد سے کیرن، شاردہ ، کیل ، آنسو لیک اور ہری پربت سے ہوکر شونٹر پاس اتر کر استور کی رٹو وادی سے ہوتے ہوئے گریکوٹ پہنچ پائیں گے ۔ اس وادی میں ترشنگ نامی گاؤں سے آگے جاکر ننگا پربت پہاڑ کا Rupal face بیس کیمپ ہے یہی سے Mazino pass کے راستے دیامر میں فیری میڈو کی طرف جانے کا قدیمی راستہ ہے۔ گریکوٹ سے ایک راستہ گلگت کی طرف جاتا ہے جبکہ دوسرا چلم چوکی اور وہاں سے پھر راستہ دو شاخہ ہو جاتا ہے۔ ایک کے ذریعے برزل پاس سے ہوتے ہوئے منی مرگ ، دومیل اور قمری پہنچا جاسکتا ہے جبکہ دوسرا راستہ شیرقلی سے ہوتا ہوا دیوسائی اور پھر سکردو کی طرف نکلتا ہے۔

قمری، منی مرگ اور برزل پاس والے راستے کی اہمیت صدیوں سے واضع رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے لئے برٹش انڈیا اور ریاست جموں و کشمیر سے آمد ورفت کا یہی راستہ تھا جسے گلگت ایجنسی کے قیام کے دوران بہتر بنایا گیا تھا۔ اسی راستے سے انگریز، ڈوگرہ، سکھ اور تاجر جو یارقند اور چینی ترکستان سے سامان کی تجارت کرتے تھے آتے جاتے رہے ہیں۔ برزل پاس سے ایک اور ذیلی راستہ چھوٹا دیوسائی اور پھر گلتری اور دراس جانے کے لئے استعمال ہوتا تھا لیکن اب صرف گلتری تک قابل استعمال ہے۔

استور گریکوٹ سے نکلنے کے بعد بوبن گاؤں سے ایک اور درہ شغر تھنگ کی طرف جاتا ہے اور اسی درے سے مجوزہ سڑک کی تعمیر کی جا رہی ہے۔ شغرتھنگ کی وادی قدرتی حسن سے مالامال ہے اور یہی سے جل گاؤں (ژھوق) اور پھر کچورا شنگریلا سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ کے کنارے سکردو گلگت روڈ میں پہنچا جاسکتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے اس مجوزہ سڑک کے ذریعے آذاد کشمیر ، استور ، گلگت اور بلتستان ایک ٹورسٹ سرکٹ کے طور پر آپس میں منسلک ہو جاتے ہیں۔

تعمیر و ترقی اور ماحولیاتی تحفظ

چونکہ یہ سڑک مظفرآباد سے رٹو وادی پھر بوبن استور اور پھر شغر تھنگ وادی کے بعد کچورا سے گذرتی ہے لہذا اس کی تعمیر کے بعد سیاحتی اور کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ایک ناگزیر امر ہے۔

اس سلسلے میں سب سے پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ جگہ جگہ ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز تعمیر کئے جاتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں طرح طرح کی دکانیں اور کاروباری مراکز تعمیر ہوتے ہیں۔ یوں بغیر پلاننگ کے بنائی جانے والی اس طرح کی عمارتوں میں نہ تو بلڈنگ کوڈز کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہیTourist spots  کی ماحولیاتی قدر و قیمت کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔

مظفرآباد سے لے کر شغرتھنگ وادی تک کا تمام علاقہ ecologically fragile ہے۔ اس تمام علاقے میں الپائن چراگاہیں، جھیلیں، صنوبر کے درخت، صاف پانی کی ندیاں، روایتی طرز تعمیر کے حامل گاؤں اور سبزہ و گل کے کئی میدان ہیں۔

ان متذکرہ جگہوں کی کشش دراصل ان کا یہ قدرتی حسن ہے جن کا ذکر ہوا ہے اور اس میں کسی قسم کا بگاڑ سب کچھ غارت کر جائے گا۔

اس حوالے سے ایک مثال کچورا وادی کی ہے جس میں برتی گئی بے احتیاطی اور پلاننگ کا فقدان گاؤں کے قدرتی حسن کو بری طرح خراب کرگیا ہے۔ ہر قدم پر بغیر ترتیب و تنظیم کے ہوٹل بن گئے ہیں اور گھروں سے متصل جو خوبصورت باغ اور کھیت تھے وہ گاڑیوں کی پارکنگ میں بدل گئے ہیں۔ یہی ابتری جل گاؤں (ژھوق ویلی) میں بھی شروع ہوئی ہے۔

لہذا شغر تھنگ ویلی کو باقاعدہ پلاننگ کے تحت بچانا اور سیاحتی ترقی کو کسی ضابطے کے اندر رکھنا نہایت ضروری ہے۔

اتنا تو کیا جاسکتا ہے کہ شغر تھنگ، استور اور رٹو وادی جہاں جہاں سے یہ مجوزہ سڑک گذرے گی اس کو خصوصی سیاحتی زون ڈیکلیئر کیا جائے۔

نیز یہاں پر تعمیر و ترقی کے تمام منصوبے خواہ وہ سرکاری سطح کے ہوں یا نجی نوعیت کے ان سب کو متذکرہ علاقوں کی ماحولیاتی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہاں عملدرآمد کرنے کی اجازت ہو اور اس کے لئے خاص قوانین وضع ہوں اور گائیڈ لائن بھی میسر ہوں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ