غورسے کے بعد وادی کا رخ پھر تبدیل ہوتا ہے اور پھر ہلدی گاؤں سے سلترو سیاچن کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ ہلدی گاؤں کئی لحاظ سے منفرد اور ممتاز ہے۔
تاریخ میں مذکور ہے کہ یبگو خاندان کا پھڑوا کے بعد اصل پایہ تخت ہلدی میں تھا اور وہاں سے 15 ویں صدی عیسوی میں سلیم الدے کے عہد میں راجدھانی خپلو منتقل ہو گئی تھی۔ ہلدی میں دریا کے کنارے ایک ٹیلے پر اب بھی قدیم قلعے کے آثار منہدم دیواروں اور پتھروں کے ڈھیر کی شکل میں موجود ہیں۔ ہلدی میں ایک جگہ پتھروں پر کندہ تصاویر اور سنگی نقوش بھی موجود ہیں، جو اس جگہ کی قدامت اور اہم گذرگاہ ہونے کی علامت ہے۔
ان سب سے بڑھ کر ہلدی تصوف اور شعر و سخن کی بلند مرتبہ ہستی بوا جوہر کی جائے پیدائش اور مدفن ہے۔ ان کے مزار اقدس میں لگی تختی کے مطابق بوا جوہر کے پردہ فرمانے کی تاریخ 1901 سے 1905 کے درمیان کی بیان کی گئی ہے۔
بلتستان میں جہاں بھی پرانے آستانے ہیں وہ روایتی طرز تعمیر کے تحت بنائے گئے ہیں اور اب بھی بزرگ ہستیوں کے آستانے اس روش کے تحت بنائے جا رہے ہیں۔
آغا علی موسوی کا مقبرہ حسین آباد سکردو اور شیخ غلام حسین سحر کا مزار اقدس چھورکا شگر اسی روایتی طرز تعمیر کی تازہ ترین مثالیں ہیں۔ لیکن صد افسوس کہ بوا جوہر کا مقبرہ سیمنٹ اور سریا سے بنانے کی کوشش کی گئی ہے، جو تاحال مکمل نہیں ہے۔
بوا جوہر کی شاعری بحر طویل کی صورت میں موجود ہے جن کی تعداد شاید 26 تک ہے۔ ممتاز محقق محمد حسن حسرت نے 2015 میں ’جوہر بلتستان‘ کے نام سے بوا جوہر کی شخصیت و آثار کو تربیب و تدوین کیا۔ اس کتاب میں حسرت صاحب نے دس کے قریب بحر طویل جمع کیے۔ انہوں نے بوا جوہر کے فنی محاسن پر بھی صائب تبصرے کیے ہیں۔
کتاب کے صفحہ 31 میں ایک واقعہ کا ذکر ہے، جس کے مطابق ایک دفعہ بلتستان میں قحط پڑا تو اس سے بوا جوہر بھی بری طرح متاثر ہوئے اور انہوں نے خپلو کے راجہ حاتم خان حاتم کے نام ایک قطعہ لکھ کر بھیجا۔ حسرت صاحب کے مطابق راجہ صاحب یہ قطعہ پڑھ کر لرز اٹھے اور مناسب امداد فراہم کی۔ حسرت صاحب نے بلتی زبان میں قطعہ بھی دیا یے۔
میری خوش قسمتی رہی کہ گذشتہ کچھ سالوں سے محترم سید علی سے تعلق بنا ہے۔ سید علی صاحب میر عارف کی دختر نیک اختر شرف النسا، جو میر مختار کے بیٹے میر اسحاق کے ساتھ بیاہی گئی تھیں، کی اولادوں میں سے ہے۔ سید علی صاحب ہیڈ ماسٹر ریٹائرڈ ہوئے ہیں اور چھوار چھوربٹ کے رہائشی ہیں۔ نہایت حلیم طبع، عاجزانہ مزاج اور علم و ادب سے معطر ہیں۔ تاریخ ، تصوف، آرکیالوجی اور مذہبی تعلیم کے شناور ہیں حتیٰ کہ بلتی زبان ’ایگے‘ کا بھی خوب علم رکھتے ہیں۔ گو کہ خاندانی طور پر میر واعظ ہیں مگر کسی بھی قسم کے تصنع اور تکلف سے بلاکل پاک ہیں۔
انہوں نے تصوف و سلوک کے حوالے سے کتابیں بہت جمع کر رکھی ہیں۔ خاص طور پر مخطوطات بڑی تعداد میں ان کے پاس محفوظ ہیں۔
سید علی صاحب نے بوا جوہر کے ہاتھوں لکھا ہوا ایک خط جو راجہ خپلو کو بھیجا گیا ہے وہ ازراہ کرم مجھے مطالعہ کے لئے فراہم کیا۔ یہ خط فارسی میں ہے اور ایک کالمی سائز کے قطعہ ورق پر لکھا گیا ہے۔
یہ خط بھی راجہ صاحب کو بغرض امداد لکھا گیا تھا۔ اس کی تفصیلات پر پھر کبھی بات کی جائے گی۔
بوا جوہر کے تمام کلام میں مرکزی حیثیت مدحت پنجتن پاک ، دنیا کی ناپائیداری اور تزکیہ نفس کو حاصل کرنے پر ہے، جو تصوف کے رنگ میں ہے۔
میر تقی میر نے کیا خوب کہا ہے!
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا
ہلدی کے بعد اگلا گاؤں تھگس ہے۔ یہ بھی قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ایک روایتی گاؤں ہے۔ پہاڑی نالے سے آنے والا برفانی پانی تھگس گاؤں کو تقسیم کرتا ہے۔ گاؤں ڈھلوانی سطح پر ہے، جہاں زینہ زینہ شکل کے کھیت اور خوبانی کے خوبصورت باغات ہیں۔
گاؤں میں ایک عظیم الشان خانقاہ اور اس کے پہلو میں دو خوبصورت آستانے موجود ہیں۔
خانقاہ کا ڈیزائن اسی طرز کا ہے، جو روایتی طور پر بلتستان میں ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ یعنی پہلے ایک بلند برآمدہ اور اس کے بعد خانقاہ کے مرکزی حال کا صدر دروزاہ ہوتا ہے۔ دو اور دروازے صدر دروازے کے دونوں اطراف میں بنائے جاتے ہیں۔ صدر دروازے کی چوکھٹ کی پیشانی پر عمومآ فارسی میں قطعہ کی صورت میں خانقاہ کی تعمیر کی تاریخ اور ماہر کاریگروں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ مرکزی ہال کافی بڑا اور اونچی چھت کا ہوتا ہے، جس میں جیومیٹری کے ڈیزائن اور نقش و نگار بنے ہوتے ہیں۔ اندرونی چھت کے ایک خاص ڈیزائن کا نام حاتم بند ہے، جو اکثر خانقاہوں میں بنایا جاتا ہے۔ چھت کو سہارا دینے کے لیے سالم لکڑی کے گول ، کی دائروی موٹائی کافی زیادہ ہوتی ہے، نصب کئے جاتے ہیں۔ خانقاہ کی سب سے بڑی پہچان اس کے مرکزی ہال کے دو اطراف میں تزکیہ نفس، ذہنی استغراق اور تفکر ذات کے لیے تنہائی فراہم کرنے کے لیے مراقبہ خانے بنے ہوتے ہیں۔ انہیں مقامی بلتی زبان میں چلہ کھوڑو کہا جاتا ہے۔ خانقاہ کی بیرونی دیواریں لکڑی کے ایک خاص طرز تعمیر، جو ٹھٹھر کے نام سے مشہور ہے، کے تحت بنائی جاتی ہیں، جن کے اوپر چکنی مٹی کا موٹا پلستر چڑھایا جاتا ہے۔
خانقاہ کے اوپر چھت کے درمیان لکڑی کا ایک خاص گنبد اور اس پر کلس لگا ہوا ہوتا ہے، جسے عموماً تبتی ٹاور کہتے ہیں۔ لیکن میں نے کسی بھی تبتی طرز تعمیر والی عمارت کی تصویر میں یہ گنبد نہیں دیکھا۔ سری نگر میں حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی سے منسوب مسجد میں بھی اسی طرز کا گنبد بنا ہوا ہے۔
الغرض ذکر تھگس اور ژھینو کی خانقاہوں کا ہو رہا تھا۔ تھگس والی خانقاہ کی اہمیت اس لحاظ سے بھی زیادہ ہے کہ اس کے پہلو میں میر عارف اور میر ابوسعید دفن ہیں اور ان کے منفرد ڈیزائن کے چھوٹے چھوٹے آستانے مرجع خلائق ہیں۔
میر عارف اور میر ابوسعید بھائی تھے، جو 18 ویں صدی عیسوی میں کشمیر سے بلتستان تشریف لائے اور میر شمس الدین عراقی کے اخلاف سے تھے۔ میر عارف تھگس میں مقیم رہے، جبکہ میر ابوسعید نے کریس میں جاکر قیام کیا۔
میر اسحاق میر مختار اخیار کے بیٹے تھے اور کریس سے تھگس آکر آباد ہوئے۔ وہ میر عارف کے داماد تھے۔ میر عارف نے تھگس خانقاہ تعمیر کی تھی۔
جب ہم 20 ستمبر 2024 کو تھگس خانقاہ پہنچے تو اس میں کچھ تجدیدی کام ہو رہا تھا۔ بیرونی دیواروں کا پرانا پلستر اتار دیا گیا تھا۔
وہاں کے معززین نے بتایا کہ چھت کی بوسیدہ لکڑی کو تبدیل کرنے کا بھی پلان ہے۔ یہ دیکھ کر سخت کوفت ہوئی کہ میر عارف اور میر اسحاق کے خوبصورت آستانے جو لکڑی سے بنائے گئے تھے اور بلتستان کی آرکیٹکچر کے شاندار نمونہ تھے کی حالت بگاڑ دی گئی ہے۔ نہ جانے کس ارسطو نے صلاح دی اور کس نے دام و درم فراہم کیا تھا کہ دونوں آستانوں کی شاندار ڈیزائن والی چھت ادھیڑ کر اس میں لوہے کی چادریں ڈال دی گئی ہیں۔ مزید ستم یہ کہ دیواروں پر لگی ہوئی منفرد ڈیزائن کی جالیاں اتار کر پلائی ووڈ کی مشینی طرز کی مصنوعی جالیاں اس میں نصب کی گئی ہیں۔ ستم بالائے ستم بغیر کسی سوچ بچار کے دونوں آستانوں پر سبز رنگ پھیر دیا گیا ہے۔
تاریخی اور مذہبی عمارتوں کی ٹوٹ پھوٹ یقینی امر ہے اور اس میں تجدیدی کام بھی لازم ہے مگر اس کے لیے ٹھیکہ یا ٹارگٹ اپروچ سے ہٹ کر ان عمارتوں کے طرز تعمیر اور تاریخی اہمیت کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
ان عمارتوں پہ بنے ڈیزائن اور تعمیراتی خدوخال کے پیچھے ایک وسیع تاریخ اور ثقافت پنہاں ہے جو ہماری تہذیبی ورثے کی بڑی نشانی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرز کی عمارتوں کی بحالی اور تجدیدی کام میں حد درجہ خیال رکھا جائے کہ اصل صورت میں بگاڑ پیدا نہ ہوں۔ اس حوالے سے AKCSP نے کچھ قلعے، خانقاہیں اور آستانے بحال کر کے تعمیراتی ورثہ کی اہمیت واضح کی ہے اور اس طرح کے تجدیدی کاموں کے لیے سٹینڈرڈ گائیڈ لائنز فراہم کی ہیں۔
تھگس بظاہر اوسط درجے کا ایک گاؤں ہے لیکن گذشتہ چند سالوں سے اس کی تاریخی اہمیت کچھ اور نظر آرہی ہے۔ پرانے منہدم مکانات اور کھیتوں کی کھدائی کے دوران یہاں سے طرح طرح کے artifacts ملے ہیں۔
ان میں Tibetan beads، مختلف ڈیزائن کے زیورات، پرانی ہاتھ کی لکھی گئی کتابیں، منکے اور برتن۔ غرض قسم قسم کی چیزیں شامل ہیں۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ گاؤں قدیم اور اہم تہذیب کا حامل رہا ہے۔
تھگس سے تھوڑے سے فاصلے پر دم سم جانے والی سڑک کے کنارے ایک اور شاندار خانقاہ نظر آتی ہے۔ یہ ژھینو گاؤں ہے۔ ژھینو بھی تھگس کی طرح کا چھوٹا سا دیہاتی گاؤں ہے، جس کی جغرافیائی ساخت بالکل تھگس جیسی ہے۔ گاؤں کے پچھواڑے میں بلند پہاڑی سلسلہ ہے اور یہاں سے آگے سلترو اور خورکنڈو تک کی پہاڑیاں ایک الگ خوبصورتی لیے ہوئے ہیں۔ عمودی چٹانیں بالکل نوکیلی اور گرینائٹ سے بنی ہیں اور اتنی صاف ہیں کہ لگتا ہے بادلوں نے روز دھویا ہو۔ ژھینو گاؤں کے پہاڑی درہ میں گرینائٹ کا ایک ابھرتا ٹاور بڑی تمکنت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ گرینائٹ کا ابھار بالکل ٹرانگو ٹاور کی طرح لگتا ہے اور اس کے پہلو سے گلیشیئرز کا ٹھنڈا پانی ایک پرشور نالے کی شکل میں گاؤں کی طرف بہتا ہے۔
اسی نالے کے کنارے پر بڑے بڑے پتھروں کے پلیٹ فارمز کے اوپر ژھینو خانقاہ ایک شان سے نمایاں نظر آتی ہے۔
سڑک کی طرف سے خانقاہ کا جو مغربی حصہ نظر آرہا ہے اس میں مٹی اور چونے کا مشترکہ پلستر نہایت دیدہ زیب لگ رہا ہے۔ اسی دیوار کے درمیان میں دو کھڑکیاں ہیں اور ان کے اوپر پانچ جالی دار درمیانے سائز کی منقش روشن دان بنے ہیں۔
خانقاہ کا برآمدہ دیکھنے کے لائق ہے۔ یہ شمالاً جنوباً پھیلا ہوا ہے۔ اس کا وہ حصہ جو باہر کی طرف نکلا ہوا ہے اس میں 14 درمیانے سائز کے ستون لگے ہیں، جن کے فرش اور چھت والے حصوں پر لکڑی کی جعفری اور مخصوص ڈیزان بنے ہوئے ہیں۔ برآمدے کی اندرونی چھت کافی اونچی اور مکمل لکڑی کی بنی ہوئی ہے، جس کا وہ حصہ جو خانقاہ کے مرکزی دروازے کے بالکل اوپر واقع ہے، میں ختم بام ہے جبکہ اس کے دونوں اطراف کے حصوں میں بھی لکڑی کے تختوں سے چوکور ڈیزائن بنا کر ان میں کالے رنگ کی لکیریں ڈالی گئی ہیں۔
خانقاہ کا صدر دروازہ اور متصل دیگر دو دروازوں کی چوکھٹوں میں نہایت باریک اور دیدہ زیب کام ہوا ہے۔ ان میں جھری نکال کر پھول دار ڈیزائن اور نقوش بنائے گئے ہیں، جبکہ چوکھٹوں کی پیشانی کے اوپر نصف قرص کی شکل کی لکڑی لگا کر پھول بوٹیوں کے ساتھ فارسی میں سال تعمیر، کاریگر اور پنجتن پاک کے نام کندہ ہیں۔
مرکزی ہال میں داخل ہوتے ہی دائیں بائیں طرف مراقبہ خانے نظر آئیں گے جن کے فرش پر بچھے غالیچے اور دیگر انتظام سے لگتا تھا کہ سود و زیاں سے پرے کچھ صاحبان حال’من لاگے یار فقیری میں‘ میں اب بھی محو سفر ہیں۔
چھ مخروطی بلند لکڑی کی ستونوں نے خانقاہ کے چھت کو سہارا دیا ہوا ہے اور اندرونی چھت کی زیبائش اور ڈیزائن دیکھنے کے قابل ہے۔
خانقاہ کے ویران احاطے میں کئی قبریں ہیں اور یہاں پر دو مقبرے ہیں، جو نہایت خستہ حال ہیں۔ یہ لکڑی کے بنے ہوئے ہیں اور لگتا ہے کہ کوئی محترم ہستیاں یہاں مدفون ہیں۔ دونوں مقبروں کی لکڑی بوسیدہ ہو گئی ہے اور چھتیں منہدم۔ ایک مقبرے میں لگی لکڑی میں نہایت دیدہ زیب نقش و نگار بنے ہیں جبکہ دوسرے میں سادہ انداز سے لکڑی لگائی گئی ہے۔ ان پر تجدیدی کام کی اشد ضرورت ہے۔
گاؤں کی پہاڑی میں جو درہ ہے اس کے آغاز میں بلندی پر پہاڑ کے ساتھ تھوڑی سی مسطح زمین ہے وہاں پر کسی پرانی عمارت کے آثار پائے جاتے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مانچو کا قلعہ تھا جو اب پتھروں کے ڈھیر کی شکل میں موجود ہے۔ تزویراتی اہمیت کا حامل یہ قلعہ اس قدیم باقیات کا حصہ ہے جب اس علاقے میں الگ الگ خودمختار قبائل کی حکومتیں قائم تھیں۔