شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہان حکومت کی کونسل کا 23واں اجلاس رکن ممالک کے درمیان وسیع تر اشتراک کے عزم کے ساتھ بدھ کو اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوگیا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے روسی وزیراعظم میخائل مشوستن کو کونسل کی چیئرمین شپ سنبھالنے پر مبارکباد دیتے ہوئے پاکستان کی جانب سے ان کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے کہا کہ ایس سی او سربراہان کونسل کا آئندہ اجلاس 2025 میں روس میں منعقد ہوگا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ایس سی او سربراہ کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ اجلاس میں رکن ممالک نے اپنی آنے والی نسلوں کے بہتر اور پائیدار مستقبل کے لیے مشترکہ عزم کو اجاگر کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ ایس سی او کے اہداف اور مقاصد کے حصول کے لیے پاکستان کی جانب سے مکمل حمایت کے عزم کا اعادہ کرتےہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے باہمی تعلقات کو سیاسی اختلافات سے بالاتر رکھتے ہوئے مشترکہ چیلنجز کو حل کرنے اور ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے عوام کے باہمی مفاد، ترقی اور استحکام کے لیے کردار ادا کرنا ہو گا۔
اس موقع پر وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ غزہ میں جاری حالیہ ’نسل کشی‘ کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
عالمی برادری کو بربریت روکنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ غزہ میں جارحیت ایک المیہ ہے، وہاں پر فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ناگزیر ہے جس کی سرحدیں 1967 سے قبل کی بنیا د پر ہوں اور جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان حکومت نے اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کی دستاویزات پر دستخط کیے جس میں مشترکہ اعلامیہ اور اقتصادی و تجارتی تعاون کو مزید فروغ دینے کے فیصلوں کے ساتھ ساتھ ایس سی او کے مستقل اداروں کے مستعدی سے کام کو یقینی بنانے کے بارے میں فیصلے شامل تھے۔
اس تقریب میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے رہنماؤں جن میں چین کی سٹیٹ کونسل کے وزیر اعظم لی چیانگ، بیلاروس کے وزیر اعظم رومن گولوو چینکو،
قازقستان کے وزیر اعظم اولزہاس بیکوتینوو، روس کے وزیر اعظم میخائل مشوستن، تاجک وزیر اعظم کوہر رسول زادہ، ازبک وزیر اعظم وزیر عبداللہ اریپوف، کرغزستان کے وزرائے کابینہ کے چیئرمین اکیل بیک جاپاروف، ایران کے وزیر تجارت سید محمد اتابیک اور بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے شرکت کی۔
اس کے علاوہ منگولیا نے ایک مبصر ریاست کے طور پر سربراہی اجلاس میں شرکت کی جس کی نمائندگی وزیر اعظم اويون اردين لويسنامسراينے کی اور ترکمانستان کے وزرا کی کابینہ کے نائب چیئرمین راشد میریدوف شریک ہوئے۔
اجلاس میں شرکت کرنے والے دیگر معززین میں ایس سی او کے سیکریٹری جنرل ژانگ منگ، ڈائریکٹر ایگزیکٹو کمیٹی ایس سی او ریجنل اینٹی ٹیررسٹ سٹرکچر رسلان مرزائیف، بورڈ آف ایس سی او بزنس کونسل کے چیئرمین عاطف اکرام شیخ اور کونسل آف ایس سی او انٹر بینک یونین کے چیئرمین مارات ییلی بائیف شامل تھے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے کامیاب انعقاد پر تمام قومی کوآرڈینیٹرز، ماہرین اور ایس سی او سیکرٹریٹ کے عملے سمیت منتظمین کاشکریہ ادا کیا اور انہیں مبارکباد دی جنہوں نے دستاویزات اور دیگر انتظامات کو حتمی شکل دینے میں جانفشانی سے کام کیا۔
اس سے قبل اسلام آباد میں بدھ کو ایس سی او کے 23 ویں سربراہی اجلاس کے اختتام پر غیر امتیازی اور شفاف تجارتی نظام کی ضرورت پر زور دیا گیا جبکہ یک طرفہ تجارتی پابندیوں، جو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کے قوانین کے متضاد ہیں، کی مخالفت کی گئی۔
ایس سی او سربراہی اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں ’ایک دنیا، ایک خاندان اور ایک مستقبل‘ کے فلسفے پر زور دیا گیا۔
اس اعلامیے کے مطابق: ’وفود کے سربراہان اور تنظیم کے رکن ممالک خطے میں وسیع، کھلی، باہمی طور پر فائدہ مند اور مساوی تعامل کی جگہ بنانے کے لیے خطے کے ممالک، بین الاقوامی تنظیموں اور کثیرالجہتی انجمنوں کی صلاحیتوں کو استعمال کرنا اہم سمجھتے ہیں۔‘
اعلامیے میں کہا گیا کہ ’ایس سی او اجلاس میں شامل ہونے والے وفود اور رکن ممالک بین الاقوامی قانون کے اصول، باہمی احترام اور قومی مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔‘
مشترکہ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ اجلاس میں ’ایس سی او، یوریشین اکنامک یونین، ایسوسی ایشن آف جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر دلچسپی رکھنے والی ریاستوں اور کثیر جہتی انجمنوں کی شرکت کے ساتھ ایک عظیم تر یوریشین پارٹنرشپ بنانے کی تجویز کو نوٹ کیا گیا۔‘
مشترکہ اعلامیے کے مطابق: ’سبز ترقی، ڈیجیٹل معیشت اور تجارت جیسے شعبوں میں خطے کی صلاحیت کو بہتر بناتے ہوئے رکن ممالک کی پائیدار اور جامع اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کو اہم سمجھا گیا اور ای کامرس، فنانس اور بینکنگ، سرمایہ کاری، اعلیٰ ٹیکنالوجی، سٹارٹ اپس اور اختراع، غربت کے خاتمے، صحت کی دیکھ بھال، بشمول روایتی اور جدید ادویات، زراعت، صنعت، ٹرانسپورٹ، لاجسٹکس کنیکٹیویٹی، توانائی، بشمول قابل تجدید توانائی، مواصلات، سائنس اور ٹیکنالوجی، ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور انفارمیشن سکیورٹی میں تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا۔‘
اعلامیے میں بتایا گیا کہ سربراہان نے الیکٹرانک تجارت کے سپیشل ورکنگ گروپ کے مسلسل اجلاس منعقد کرنے کی ضرورت پر زور دینے کے علاوہ قومی صعنتی پالیسی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے تجربات کے تبادلے کی تجویز کا بھی جائزہ لیا۔
اس کے علاوہ ’سربراہان نے پروڈکشن ٹیکنالوجی اور آئی ٹی سے متعلق اقدامات پر عملدرآمد کے تجربات کی تجویز کا جائزہ بھی لیا۔‘
اعلامیے کے مطابق اجلاس میں پاکستان، کرغزستان، بیلاروس، قازقستان، روس اور ازبکستان نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی حمایت کی اور تنظیم کے یورپ اور ایشیا کے مابین بہتر اقتصادی اشتراک کی ضرورت پر زور دیا۔
اجلاس نے گرین ڈویلپمنٹ، ڈیجیٹل اکانومی، تجارت، سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کے شعبوں میں رکن ممالک کے استعداد کار بڑھانے کی ضرورت پر بھی پر زور دیا۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ سربراہان نے ایس سی او کے سربراہان حکومت کے کامیاب اجلاس پر پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا۔
ایس سی او اجلاس سے وزیر اعظم شہباز شریف کا خطاب
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کے افتتاحی خطاب سے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کا اسلام آباد میں باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔
اپنے خطاب سے قبل بدھ کو وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے جناح کنونشن سینٹر میں انڈین وزیر خارجہ سمیت اجلاس میں شریک رکن ممالک کے سربراہان اور وفود کا استقبال کیا۔
اسلام آباد میں ہونے والے 23ویں شنگھائی تعاون تنظیم سربراہان حکومت کی کونسل کے اجلاس میں سات رکن ممالک کے وزرائے اعظم، آبزرور رکن منگولیا کے وزیراعظم، ایران کے وزیر تجارت، انڈیا کے وزیر خارجہ جبکہ ترکمانستان سے بھی خصوصی مہمان شریک ہو رہے ہیں۔
اجلاس کا باقاعدہ آغاز بدھ کی صبح مندوبین کی جناح کنونشن سینٹر آمد اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے ہمراہ تصاویر سے ہوا ہے۔
بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے اجلاس کے شرکا سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے انہیں ایک بار پھر اسلام آباد میں خوش آمدید کہا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’مجھے معزز مہمانوں کی اسلام آباد آمد پر خوشی ہے اور اس اجلاس کی میزبانی ہمارے لیے باعث فخر ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج کا اجلاس ہمارے تعلقات کی مضبوطی کا عکاس ہے۔ ہم ایک ساتھ علاقائی امن، استحکام اور معیشت کو آگے لے کر چل سکتے ہیں۔‘
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ ’افغانستان کو اپنی سرزمین کا دہشت گردی کے لیے استعمال روکنا ہو گا۔‘
انہوں نے افغانستان ہی کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان علاقائی ترقی اور استحکام کے لیے بہت اہم ملک ہے اور پاکستان پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کا خواہاں ہے۔‘
شہباز شریف نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امداد پر توجہ دے۔
ایس سی او اجلاس سے انڈین وزیر خارجہ کا خطاب
پاکستانی وزیر اعظم کے بعد جب شرکا کی جانب سے خطاب کا سلسلہ شروع ہوا تو انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر نے اپنے خطاب کے آغاز میں کہا کہ ’میں پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم سربراہان حکومت کی کونسل کے اجلاس کی صدارت پر مبارک باد دیتا ہوں۔ انڈیا نے کامیاب صدارت کے لیے حمایت کا اظہار کیا ہے۔‘
انڈین وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ہم ایک ایسے وقت ملک بیٹھے ہیں جب دنیا میں دو بڑے تنازعات جاری ہیں، جن میں سے ہر ایک کے اپنے عالمی نتائج ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم کے ارکان کو موجودہ چیلنجز سے کیسے نمٹنا چاہیے؟ اس کا جواب تنظیم کے چارٹر میں موجود ہے۔‘
’میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ آرٹیکل 1 کو دیکھیں جو ایس سی او کے اقدام اور مقاصد کے بارے میں بتاتا ہے۔ میں اسے ہمارے مشترکہ غور و خوص کے لیے واضح کر دیتا ہوں۔ اس کا مقصد مشترکہ اعتماد، دوستی اور بطور پڑوسی اچھے تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’چارٹر ہمارے اہم چیلنجز کے حوالے سے واضح ہے۔ اور یہ بنیادی طور پر تین ہیں جن کا ایس سی او نے مقابلہ کرنا ہے: ایک دہشت گردی، دوم علیحدگی پسندی اور تیسرا شدت پسندی۔‘
’اگر ہم اس چارٹر کے وجود میں آنے سے تیزی آگے بڑھ کر موجودہ صورت حال کو دیکھیں تو یہ مقاصد اور اقدام زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔‘
جے شنکر نے کہا کہ ’لہذا اب مخلصانہ بات جیت کی ضرورت ہے۔ اگر اعتماد کی کمی ہے یا تعاون ناکافی ہے، اگر دوستی کم ہو گئی ہے اور کہیں اچھی ہمسائیگی کا فقدان ہے، تو یقینی طور پر غور و فکر کے ساتھ وجوہات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘
’اس سب کے لیے تعاون کی بنیاد باہمی احترام اور مساوی خود مختاری ہے۔ ریاست سالمیت اور خودمختاری کو تسلیم کیا جائے۔ اس کو (تعاون) حقیقی شراکت داری پر تعمیر کیا جائے نہ کہ ایجنڈوں پر۔ یہ نہیں بڑھ سکتا اگر ملک تجارت اور سفر کے شعبوں میں من مانی سے کام لیتے رہے۔‘
انڈیا کے وزیر خارجہ نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ سے کیا ’یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ایس سی او کے چارٹر میں دیے گئے نکات پر عمل کریں۔ کیونکہ ایس سی او تبدیلی کی خواہاں قوتوں کی نمائندگی کرتا ہے جن سے دنیا کو بہت امیدیں ہیں۔ آئیے مل کر ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوں۔‘
اجلاس کے دوران بعض اہم دستاویزات اور معاہدوں پر دستخط کیے جانے کا بھی امکان ہے جن میں تجارتی شراکت داری، انفراسٹرکچر کی ترقی اور مشترکہ سلامتی کے اقدامات شامل ہوں گے۔
بعد میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار شنگھائی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل ژانگ منگ کے ہمراہ پریس بریفنگ دیں گے۔
وزیراعظم کی جانب سے سرکاری ظہرانے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے جہاں رہنماؤں کے درمیان غیر رسمی بات چیت کا امکان بھی ہے۔
اجلاس کے ایجنڈے کے حوالے سے پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’شنگھائی تعاون تنظیم میں سربراہان حکومت کی کونسل کے اجلاس کا مینڈیٹ محدود ہے اسی لیے اسی پر ہی رہنا ہو گا۔ اس میں رکن ممالک کے مابین عوامی رابطے، ریل روڈز ، تجارت اور کلچرل رابطوں پر بات ہو گی۔‘
ایس سی او کے رکن ممالک کے سربراہان کے 23 ویں اجلاس کے لیے منگل کو پہنچنے والوں میں وزیر خارجہ جے شنکر سمیت انڈیا کی چار رکنی ٹیم، روس کے 76، چین کے 15، ایران کے دو اور کرغزستان کا چار رکنی وفد شامل ہے۔
تاجکستان، کرغزستان اور بیلاروس کے وزرائے اعظم بھی منگل کو اسلام آباد پہنچے ہیں۔
انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا دورہ اس لیے خاص ہے کہ یہ تقریباً ایک دہائی میں کسی انڈین وزیر خارجہ کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔ تاہم، پاکستان اور انڈیا پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس موقعے پر کسی دوطرفہ بات چیت کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستانی وزیر اعظم شھباز شریف نے منگل کی شام شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رکن ممالک کے سربراہان کے 23 ویں اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد میں موجود غیر ملکی سربراہان مملکت اور وفود کے اراکین کے اعزاز میں عشائیہ دیا۔
عشایئے کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف اور انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے درمیان مصافحہ ہوا، جسے مبصرین بہت اہمیت دے رہے ہیں۔
دوسری جانب ایس سی او اجلاس کے لیے اعلیٰ حکام کی آمد کے ساتھ، اسلام آباد میں سکیورٹی کے انتظامات کو سخت کر دیا گیا ہے۔ فوج کو تعینات کیا گیا ہے، جبکہ مقامی رینجرز اہم سرکاری عمارتوں اور ہائی سکیورٹی ریڈ زون میں گشت کر رہی ہیں۔
تقریباً 900 مندوبین کی حفاظت اور بلا تعطل نقل و حمل کو یقینی بنانے کے لیے شہر میں 10،000 سے زیادہ پولیس اور نیم فوجی اہلکار تعینات ہیں۔
وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں 14 تا 16 اکتوبر تک تین روزہ تعطیل کا اعلان کر رکھا ہے۔ مندوبین کو دارالحکومت کے اندر 14 مقامات پر ٹھہرایا گیا ہے، جو تمام محفوظ ریڈ زون کے اندر واقع ہیں۔ 124 گاڑیوں کے قافلے کا انتظام کیا گیا ہے، جن میں سے 84 خاص طور پر سربراہان مملکت اور 40 دیگر مندوبین کے لیے ہیں۔