حکومتی فیصلے کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پاکستان نے ملک کے 56 بڑے شہروں کی غیر منقولہ جائیداد کی سرکاری قیمت میں پانچ فیصد تک اضافہ کر دیا ہے۔
اس اقدام کے بعد جائیدادوں کی سرکاری قیمت اور مارکیٹ ریٹ کے درمیان فرق بیشتر علاقوں میں کم ہو کر 20 فیصد رہ گیا ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے 56 بڑے شہروں میں جائیداد کی سرکاری قیمت اور مارکیٹ ریٹ میں فرق کم کرنے کے لیے 30 اکتوبر کو باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔
اس نوٹیفکیشن کے مطابق 56 میں سے 45 شہروں کی جائیداد کے سرکاری ریٹ پانچ فیصد بڑھا دیے گئے جبکہ 11 شہروں کے ریٹس بھی جلد بڑھانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
غیر منقولہ جائیدادوں کے سرکاری ریٹ مارکیٹ کے مطابق بڑھانے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی جانب سے شرط رکھی گئی تھی۔
لاہور کی پراپرٹی ڈیلر ایسوسی ایشن کے سربراہ چوہدری نعیم گورائیہ کے مطابق ’جو پلاٹ دو کروڑ کا تھا وہ سرکاری قیمت میں اضافے سے 15 فیصد تک مذید مہنگا ہوجائے گا۔ زمینوں کی خریدوں فروخت کم ہونے سے حکومت کی ٹیکس وصولی میں اضافے کے بجائے کمی آئے گی۔ پراپرٹی کا کاروبار اور عام شہریوں کے لیے جائیداد کی خرید و فرخت پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے متاثر ہے اب اس میں مزید کمی ہوگی۔‘
جائیداد کی سرکاری قیمت میں اضافے سے سرکاری منصوبوں کی لاگت میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔ سابق تحصیلدار صدیق احمد کے بقول ’حکومتی منصوبوں کے لیے زمین سرکاری ریٹ کے مطابق خریدی جاتی ہے اس میں اضافہ کی وجہ سے مارکیٹ اور سرکاری ریٹ ملا کر تخمینہ زیادہ بنے گا۔‘
ان کے مطابق: ’اس اعلان کے بعد ملک بھر کے بڑے شہروں میں پراپرٹی کی خریدوفروخت کے ساتھ عام شہریوں کے لیے پلاٹ یا گھر خریدنا جو پہلے ہی مشکل تھا اب زیادہ دشوار ہوگیا ہے۔‘
غیر منقولہ جائیداد کے سرکاری ریٹ
ویسے تو حکومت کی جانب سے ہر سال سرکاری جائیداد کے مارکیٹ ریٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے نظر ثانی کی جاتی ہے لیکن 2018 سے 2022 کے دوران نظر ثانی کے باوجود نئی سرکاری قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن آئی ایم ایف سے حالیہ مزاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا تھا کہ بڑے شہروں میں غیر منقولہ جائیداد کی سرکاری قیمت میں اضافہ کیا جائے تاکہ مارکیٹ ریٹ کا فرق کم ہوسکے اور ٹیکس بھی زیادہ ہو۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ پراپرٹی ویلیوز کو قانون و انصاف ڈویژن کی منظوری کے بعد سرکاری قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے تاکہ جائیداد کی قیمتوں کو حقیقی مارکیٹ ریٹ کے ساتھ ہم آہنگ کرنے اور خلا کو کم کیا جاسکے۔
ایف بی آر کی جانب سے ایبٹ آباد، اٹک، بہاولنگر، بنوں، بھکر، چکوال، چنیوٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، ڈی جی خان، فیصل آباد، گھوڑا گلی، گھوٹکی، گوجرانوالہ اور گجرات میں جائیداد کی سرکاری قیمت بڑھائی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح حافظ آباد، ہری پور، حیدرآباد، جھنگ، جہلم، قصور، کوہاٹ، خوشاب، کوٹلی ستیاں، لاڑکانہ، لودھراں، منڈی بہاؤالدین، مانسہرہ، مردان بھی ان شہروں میں شامل ہیں جہاں قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔
ایف بی آر کی جاب سے میانوالی، میرپورخاص، مری، ننکانہ، نارووال، نوشہرہ، اوکاڑہ، پاکپتن، پشاور، ساہیوال، شیخوپورہ، سیالکوٹ، سکھر، ٹارگٹ کلنگ ٹوبہ ٹیک سنگھ، وہاڑی اور وزیر آباد میں بھی جائیداد کے سرکاری ریٹ میں بڑھائے۔
جن 11 شہروں میں قیمتیں ابھی تک نہین بڑھائی گئیں ان کے حوالے سے بھی ایک دو دن میں نوٹیفکیشن جاری کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
ان شہروں میں اسلام آباد، راولپنڈی، بہاولپور، گوادر، کراچی، لاہور، لسبیلہ، ملتان، کوئٹہ، رحیم یار خان اور سرگودھا شامل ہیں۔
اس بار ایف بی آر نے 14 نئے شہر ایسے بھی اس فہرست میں شامل کیے ہیں جن میں جائیداد کی سرکاری قیمت پہلی بار بڑھائی گئی ہے۔
نوٹیفکیشن کے بعد جائیداد کی مقرر ہونے والی نئی سرکاری قیمت کا اطلاق بھی یکم نومبر سے کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
اب خریدو فروخت نئی قیمتوں کے مطابق ہوگی اور سرکاری ٹیکسوں کا نفاذ بھی نئی قیمتوں کے مطابق ہی ہوگا۔
ایف بی آر نے شہروں کے مختلف علاقوں کے لحاظ سے نئی قیمت کی فہرستیں بھی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کر دی ہیں۔
جائیداد کی نئی سرکاری قیمت کے اثرات
لاہور کی پراپرٹی ڈیلر ایسوسی ایشن کے سربراہ چوہدری نعیم گورایہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لاہور سمیت تمام بڑے شہروں میں جائیداد کی قیمت کے سرکاری نرخ زیادہ ہی رکھے گئے ہیں۔ طلب کے حساب سے ہر جائیداد کا مالک اپنے طور پر قیمت مقرر کرتا ہے۔ لیکن ہاؤسنگ سوسائیٹیز میں ریٹس حکومتی ڈویلپمنٹ اتھرٹیز کے قوائد وضوابط کے مطابق طے کیے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے پہلے ہی حکومت نے کئی ٹیکس عائد کر رکھے ہیں۔ رہائشی کالونیوں میں ٹرانسفر فیس، رجسٹری اور ایل ڈے سے منظوری کی فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔‘
نعیم گورائیہ کے مطابق: ’لاہور سمیت بڑے شہروں میں ہزاروں ہاوسنگ سوسائیٹیز ہیں جن سے سرکاری محکمے تمام فیسیں باقائدگی سے وصول کرتے ہیں۔ اب سرکاری ریٹ بڑھنے سے مارکیٹ ریٹ بھی زیادہ ہوجائے گا۔ اس کا اثر براہ راست پراپرٹی ڈیلرز اور عام شہریوں پر ہی پڑے گا۔
’کوئی بھی ہاوسنگ سوسائٹی بنانے کے لیے زمین کی خریداری پر اضافی رقم ادا کرنے سے پلاٹوں کی قیمت بڑھ جائےگی۔ اس طرح خریدو فروخت کم ہوجائے گی اور ٹیکس وصولی بھی کم ہوگی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’غیر منقولہ جائیدادوں پر کئی ٹیکس عائد ہیں اگر ایک پلاٹ کی قیمت دو کروڑ ہو تو اس پر 20 فیصد تک ٹیکسوں کی مد میں لیا جاتا ہے۔ لیکن جہاں حکومتی اداروں کی ذمہ داری کی بات آتی ہے وہاں کوئی سروس دکھائی نہیں دیتی۔ کئی ہاؤسنگ سوسائیٹیز پلاٹ فروخت کر دیتی ہیں اور پلاٹ نہیں دیتیں لیکن حکومتی محکمے کسی کی شکایت پر عمل نہیں کرتے۔ حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس بڑھانے کے لیے لوگوں کو سہولیات بھی دیں تاکہ کاروبار بند نہ ہوں بلکہ ٹیکس زیادہ جمع ہو۔‘
سابق تحصیل دار صدیق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جائیداد کی سرکاری قیمت میں اضافے سے ٹیکس تو بڑھ جائے گا لیکن اس سے حکومتی منصوبوں کے لیے زمینوں کی خریداری کا تخمینہ بھی زیادہ لگے گا۔ سڑکوں یا سرکاری عمارات کے لیے زمینوں کی خریداری عام طور پر سرکاری ریٹ اور مارکیٹ ریٹ کو ملا کر ادا کرنا ہوتی ہے۔ اس اضافے کے بعد حکومت کو بھی منصوبوں کے لیے مہنگی زمین خریدنا پڑے گی۔‘