’یارب! پاکستان کو شمیم کاظمی جیسی بیٹیاں عطا کر‘

اٹھائیس اکتوبر کو کراچی میں انتقال کر جانے والی شمیم کاظمی کے بارے میں اگلی نسلوں بالخصوص لڑکیوں کو بتانا بڑا ضروری ہے۔

شمیم کاظمی اپنے کریئر کے عروج پہ پہنچیں تو پوری توجہ پاکستان بھر کی خواتین کو معاشی طور پر خوشحال بنانے کی طرف مرکوز کر دی (عفت حسن رضوی)

اسے سوشل میڈیا کی مہربانی کہیے یا یوں کہیں کہ ساری دنیا ہی اس کھوکھلے پن کی لہر کی لپیٹ میں ہے کہ پاپولرزم ہر شعبے کو جکڑ چکا ہے۔

 چاہے شاعر ہو، صحافی، ادیب، سماجی رہنما یا سیاست دان۔ جسے خود کو مارکیٹ کرنا آتا ہے، جو جانتا ہے کہ پبلک ڈیمانڈ کیا ہے، جو اپنے کام سے زیادہ اپنے نام کا ہنگامہ مچائے رکھنے کا ہنر جانتا ہے وہی اس شعبے کا ماہر کہلانے لگتا ہے۔ اب چاہے وہ شخصیت اندر سے کتنی ہی کھوکھلی ہو۔

ایک وقت تھا جب کام کرنے والے خاموشی سے دوسروں کے لیے بڑے بڑے  کام کر گزرتے تھے اور انہیں کسی مشہوری کی طلب بھی نہیں ہوتی تھی۔

ایسی ہی تھیں شمیم کاظمی! جن کے دنیا سے چلے جانے پہ معروف ادیبہ فاطمہ حسن نے دعا کی ہے: ’یارب! پاکستان کو شمیم کاظمی جیسی بیٹیاں عطا کر۔‘

اٹھائیس اکتوبر کو کراچی میں انتقال کر جانے والی شمیم کاظمی کے بارے میں اگلی نسلوں بالخصوص لڑکیوں کو بتانا بڑا ضروری ہے۔

انہیں بتانا ہے کہ کیسے کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر بھی شمیم کاظمی اپنی جڑوں سے جُڑی رہیں۔ کیسے جوانی میں بے پرواہ  زندگی گزارنے کی پوری آزادی ہونے کے باوجود انہوں نے سماجی تحریک کی بنیاد رکھ دی۔

اور کیسے فیمینزم کا خالی خولی نعرہ استعمال کرنے کے بجائے خاموشی سے خواتین کو معاشی و سماجی طور پر بااختیار بنانے کا مشن  جاری رکھا، اور کیسے ایک ایلیٹ سوسائٹی کی خاتون نے اچھے خاصے مالی وسائل ہونے کے باوجود سادہ رہنا اور سادہ نظر آنا ہی اپنا فیشن بنا لیا۔

میری پیشہ ورانہ زندگی کا پہلا انٹرویو شمیم کاظمی نے ہلال احمر سندھ کے دفتر میں لیا۔

ابھی  کام شروع ہی کیا تھا کہ شمیم کاظمی نے اپنی تنظیم انجمن تجارت، ملازمت و زراعت پیشہ خواتین کا دفترسنبھالنے کی ذمہ داری دے دی۔

اسی دوران کرپشن کے خلاف بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان چیپٹر نے کرپشن کے حوالے سے پاکستانیوں کی رائے جاننے کا سروے کرنا تھا۔

یہ پراجیکٹ  شمیم کاظمی کے مارکیٹنگ ادارے نے کیا جسے وہ خود لیڈ کر رہی تھیں۔

یہ پرویز مشرف کا دور تھا اور سروے میں فوج اور پولیس سمیت سرکاری اداروں میں کرپشن کے حوالے سے پاکستان کے مختلف علاقوں کے عوام کی رائے  معلوم کرنا تھی۔ 

میں تازہ تازہ یونیورسٹی سے ڈگری لے کر نکلی تھی اور تجربے و عمر میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ اتنے بڑے پروجیکٹ میں بطور ریسرچر کام کروں لیکن یہ شمیم کاظمی تھیں کہ جنہوں نے ڈانٹ ڈپٹ کر، غصے سے گھور کر، کبھی تنبیہ دے کر اور کبھی شفقت سے سمجھا کر مجھے کام پہ لگائے رکھا۔

ان دنوں میں اپنی دوستوں کے حلقے میں شمیم کاظمی کو سخت مزاج باس کے  طور پر متعارف کراتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پروجیکٹ کے دوران ایک دن میں سندھ کے علاقے چوہڑ جمالی اور سجاول گئی۔

واپسی پہ دل شکستہ ہوکر شمیم کاظمی کو بتایا کہ مردوں سے کرپشن کے حوالے سے انٹرویو کرتی ہوں تو اکثر  زیر لب مسکراتے رہتے ہیں جبکہ ایک دو نے تو کہا بھی کہ ’بیٹا یہ آپ کو کس نے یہ کام دے دیا، اس لیے اگلی بار کسی سینیئر ریسرچر کے ساتھ مجھے بطور اسسٹنٹ بھیج دیں۔‘

اس دن شمیم کاظمی نے مجھ پروفیشنل زندگی میں جونیئر اور سینیئر  کے اصل معنی سمجھائے اور اپنے وہ تمام تجربات بتائے کہ کہاں کہاں ان کو ابتدا میں  دھان پان سے لڑکی سمجھ کر نظر انداز کیا گیا جہاں وہ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ آئیں۔

شمیم کاظمی نے کم عمری میں ہی 1971 سے 1974 تک  مشرقی پاکستان سے قیدی بنائے جانے والی پاکستانیوں اور فوجیوں کی واپسی کے لیے مہم چلائی۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ میں شمیم کاظمی کے بڑے بھائی بھی قیدیوں کے کیمپ میں تھے۔

شمیم کاظمی نے نہ صرف  جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے انتہائی پُر اثر  سیاسی و سماجی مہم لیڈ کی بلکہ ان کے اہل خانہ کے لیے بھی بین الاقوامی سطح پہ آواز بنیں۔

70 اور 80 کی دہائی میں وہ وقت جب پاکستان میں بہت سوں نے مارکیٹنگ ریسرچ کا نام بھی نہ سنا ہو، شمیم کاظمی نے بطور مارکیٹنگ کنسلٹنٹ اپنا نام بنایا اور کراچی میں شہری منصوبوں کے لیے ہونے والے سرویز کی نگرانی کی۔

وہ روٹری کلب، بہبود کراچی، پروگریسو لائنز چارٹرز کلب، ہلال احمر، سکاوٹس گروپس، اور کئی دیگر تنظیموں میں یا تو بانی رکن تھیں یا ایڈوائزر ہوتی تھیں۔

شمیم کاظمی کو مقامی اور وفاقی حکومت میں بھی کئی بار وزارت کی پیشکش ہوئی لیکن ان کا مزاج کھرا تھا، جو کسی صورت ایوانوں میں ویلکم نہیں کیا جاتا۔

وہ خاتون جسے اپنی پروفیشنل اور ذاتی زندگی میں ایک ایک روپے کا حساب لکھنے اور معاملات ستھرے رکھنے کی عادت ہو وہ کہاں سیاستدانوں کے ساتھ چل سکتی تھیں۔

 شمیم کاظمی اپنے کریئر کے عروج پہ پہنچیں تو پوری توجہ پاکستان بھر کی خواتین کو معاشی طور پر خوشحال بنانے کی طرف مرکوز کر دی۔

یوں انجمن تجارت، ملازمت و زراعت پیشہ خواتین وجود میں آئی۔

اس تنظیم کے بینر تلے شمیم کاظمی نے تمام باعزم خواتین کو اکٹھا کیا اور کراچی سے خیبر تک شہروں، دیہاتوں، کھیتوں، فیکٹریوں، سرکاری دفتروں میں کام کرنے والی خواتین کو مختلف نوعیت کی سپورٹ فراہم کی۔

ضرورت مند خواتین کو چھوٹے قرضے جاری کیے، خواہش مند خواتین کو ہنر سکھائے، جیل میں قید خواتین کی بہتری کے لیے پروجیکٹس ترتیب دیے۔

کم آمدن علاقوں میں سکولز بنوائے، اور یہ سب کچھ کسی سرکاری فنڈ یا غیر ملکی امداد سے نہیں مکمل طور پر انجمن کی ممبران خواتین کی ذاتی چندوں اور کوششوں سے ممکن ہوا۔

آج شمیم کاظمی تو نہیں لیکن ان کی انجمن کی خواتین بے لوث ہو ان کے طے شدہ اصولوں کی مطابق خواتین اور مجموعی طور پہ معاشرے کے لیے اپنی سی کوشش کررہی ہیں۔

شمیم کاظمی کی یہ انجمن کسی تنازعے میں نہیں، کسی نعرے میں نہیں، کسی جلسے میں چنگھاڑتی نہیں، اور کسی کی پگڑی اچھالتی نہیں۔ بس شمیم کاظمی کی طرح انتہائی غیر محسوس انداز میں پاکستان کی خواتین کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر