حکومت پاکستان کی جمعرات کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) کی نجکاری ناکام ہو گئی۔ نجکاری کمیشن نے قومی فضائی کمپنی کی کم از کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کر رکھی تھی۔ تاہم بولی میں شریک واحد بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم نے انتہئی کم 10 ارب روپے کی پیش کش کی۔
سرکاری ٹی وی چینل پر براہ راست نشر ہونے والی تقریب میں حکومت نے بولی دہندہ کو سوچنے کے لیے کچھ وقت دیا جس کے بعد کنسورشم کے چیئرمین نے حکومتی قیمت کو رد کرتے ہوئے کہا ’ہمارے نزدیک یہی بولی بنتی ہے۔ اگر یہ قیمت مناسب نہیں تو حکومت اسے خود چلائے۔‘
نجکاری کمیشن نے جون میں ابتدائی طور پر چھ بولی دہندگان کو شارٹ لسٹ کیا تھا جن میں فلائی جناح، وائی بی ہولڈنگز پرائیویٹ لمیٹڈ، ایئر بلیو لمیٹڈ، پاک ایتھانول پرائیویٹ لمیٹڈ، عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ اور بلیو ورلڈ سٹی شامل تھے۔
لیکن تاخیر سے ہونے والی بولی میں صرف ایک ریئل سٹیٹ کمپنی شریک ہوئی۔
پاکستان کے بڑے اثاثوں میں شمار ہونے والی پی آئی اے کی نیلامی میں اس طرح کی ناکامی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والی اس نیلامی سے حکومت کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ سوال کیے جا رہے ہیں کہ اگر حکومت آگاہ تھی کہ نیلامی میں صرف ایک کمپنی شریک ہے اور خدشات تھے کہ وہ کم قیمت کی پیشکش کرے گی تو نیلامی موخر کیوں نہیں کی گئی۔
اسی طرح ایک ریئل سٹیٹ کمپنی کو شعبہ ہوا بازی میں بغیر کسی تجربے کے کیسے شامل کیا گیا؟
ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس ناکامی کا باقی اداروں کی نجکاری پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اور آیا عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاملات پر اثر پڑ سکتا ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو نے ان سوالوں کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔
معیشت اور نجکاری کے امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی شہباز رانا نے پی آئی اے کی نجکاری میں ناکامی کو حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے۔
انہوں نے بولی کھولے جانے والے روز کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ پی آئی اے کی بولی لگنے سے پہلے ہی حکومت کو معلوم تھا کہ اسے کس طرح کی شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’بولی جمع کروائے جانے کے وقت اسی وجہ سے کوئی وفاقی وزیر موجود نہیں تھا اور نہ بولی کھولے جانے کے وقت کوئی موجود تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت کو علم تھا کہ یہ ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا یہ نجکاری کو ہر طرح کی حمایت حاصل تھی لیکن حکومت اسے اچھے طریقے سے ہینڈل نہیں کر سکی جس کی وجہ سے ’اسے شرمندگی کا سامنا‘ کرنا پڑا۔
اس سوال پر کہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی قومی ائیرلائن کی بولی کے حتمی مراحل تک کیسے پہنچی؟ شہباز نے کہا کہ سب سے پہلا سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی جس کا نہ ہوا بازی میں کوئی تجربہ ہے اور نہ اس کے کنسورشیم میں ہوا بازی کا کوئی ساتھی تھا، اسے کیسے مالیاتی مشیر نے، جس کو دو ارب روپے کی ادائیگی کی گئی، کیسے تکنیکی طور پر اہل قرار دیا؟
اس کے علاوہ نج کاری کمیشن بورڈ نے کیسے اس کی منظوری دی؟ اور یہ حتمی مرحلے تک کیسے پہنچ گئی؟
ان کا کہنا ہے کہ ’اس سارے عمل سے گزر کر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا یہاں تک پہنچ جانا پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اس میں مالیاتی مشیر کمپنی اور نجکاری کمیشن بورڈ کی بنتی ہے جنہوں نے سوسائٹی کو اس قابل سمجھا کہ نہ صرف یہ پی آئی اے خرید سکتی ہے بلکہ چلا بھی سکتی ہے۔‘
شہباز رانا کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کا عمل رکنے سے حکومت کی نجکاری کے ایجنڈے کو بڑا دھچکا لگا۔ ’جہاں ایک طرف یہ عمل رک گیا ہے وہیں دوسری طرف توانائی کے شعبے میں نجکاری پر سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔‘
انہوں نے کہ اس وقت حکومت جسے تمام حلقوں کی حمایت حاصل ہے اس کی پی آئی اے کی نجکاری کی ناکامی سے توانائی کے شعبے کی نجکاری کا آئندہ پلان کھٹائی میں پڑتا دکھائی دیتا ہے۔
ہوا بازی کے امور پر نظر رکھنے والے صحافی طاہر عمران میاں نے کہا کہ حکومت نجکاری کو لے کر بالکل سنجیدہ نہیں تھی، ’جتنی سنجیدہ تھی اسی طرح کا نتیجہ نکلا ہے۔‘
طاہر عمران کے مطابق حکومت اس کشمکش کا شکار تھی کہ نجکاری کو کیسے آگے بڑھائے، اسی لیے عمل میں 30 روز کی تاخیر کی گئی لیکن پھر بھی کوئی سنجیدہ خریدار آگے نہیں آیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا کہ وہ اپنے پلان کے مطابق بولی کھولیں۔ حکومت دوسری خریداروں کو انگیج کرنے میں ناکام رہی۔‘
پی آئی اے کی نجکاری کا عمل ایسے وقت میں جاری ہے جب ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خاص طور پر صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گرد تنظیموں کے حملے بڑھے ہیں۔
طاہر عمران نے مستقبل میں پاکستان کے اداروں کی نجکاری پر اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا نجکاری کا مرحلہ ایک مشکل عمل ہے۔ ’ایسے وقت میں جب ایک جانب ملک کے دو بڑے صوبوں میں امن و امان کو صورت حال خراب ہے اور دہشت گردی کے واقعات میں دوبارہ اضافہ ہو گیا ہے تو دوسری جانب گذشتہ 20 برس میں چین کے علاوہ کہیں اور سے سرمایہ کاری نہیں آئی۔‘
انہوں نے ماضی اور حال میں کیے والے معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا سٹیل مل کی نجکاری کے بعد کیا ہوا؟ بلوچستان میں پٹرولیم کی ایکسپلوریشن اور ریکوڈک معاہدوں کا کیا مستقبل نکلا؟ اس صورت حال میں جب اعتماد کی کمی ہو تو سرمایہ کار کیا سوچے گا؟
’جب تک بنیادی ری سٹرکچرنگ نہیں ہوگی اور ٹیکس نیٹ کو بڑھایا نہیں جائے گا تب تک لوگ معاشی پلان کیسے قبول کریں گے؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ جب ادارے، صنعت کار، تاجر، ریستوران مالکان ٹیکس ادا نہیں کرتے تب تک معاشی پلان کیسے مرتب کیا جائے گا؟
نجکاری کے عمل میں ناکامی سے آئی ایم ایف کے پروگرام پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے شہباز رانا نے کہا کہ سرکاری اداروں کے نقصانات کو کم کرنا آئی ایم ایف کے پروگرام کا حصہ ہے۔
’اس میں خصوصی طور پر پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے ڈیڈ لائن تو نہیں تھی لیکن حکومت نے آئی ایم ایف کو بتا دیا تھا کہ قومی ائیرلائن کی نجکاری اس کی ترجیح ہے۔
’پی آئی اے پاکستان کا چوتھا بڑا ادارہ ہے جو نقصان میں جا رہا ہے جس کے منفی اثرات پاور سیکٹر پر پڑ سکتے ہیں جو آئی ایم ایف کے پروگرام کو اثر انداز کر سکتا ہے۔‘
تاہم طاہر عمران کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کا عمل رکنے سے آئی ایم ایف پروگرام متاثر ہونے کے امکانات کم ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ سے رابطہ کیا لیکن ان کی جانب سے تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔