کراچی کے کچھ بس سٹاپ اتنے ہی مشہور ہیں کہ جیسا خود کراچی، کھلے اور سب کو راستہ دینے والے۔ ایک ایسا ہی بس سٹاپ یا چورنگی گرومندر ہے۔
یہ اتنی مصروف چورنگی ہے کہ آپ کا رخ صدر کی طرف ہو یا آپ کلفٹن جانا چاہتے ہوں۔ آپ گارڈن یا جمشید کوارٹر سے آ رہے ہوں یا پھر آپ کو ناظم آباد سے نکل کر آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع دفتر پہنچنا ہو۔ گرومندر اور نمائش سے گزرے بغیر آپ اپنی منزل مقصد تک نہیں پہنچ سکتے۔
سمجھ لیں کراچی کے صدر کے بعد مصروف ترین چورنگی یہ ہی کہی جا سکتی ہے۔
اس معروف چورنگی کا نام کئی بار تبدیل ہوا۔ پہلے پہل 1992 میں اس کا نام ’بابری چوک‘ ہوا پھر 2004 میں مفتی نظام الدین شامزی‘ کے ٹارگٹ کلنگ کے بعد اسے ’شامزی‘ لکھا جانے لگا۔ لیکن عرف عام میں آج بھی ہم گرومندر سے گزرتے ہیں اور کراچی کے بسوں کے کنڈیکٹر’ گرومندر گرومندر‘ کی صدا لگاتے ہیں۔
کتاب ’اس دشت میں اک شہر تھا‘ کے مصنف اقبال اے رحمٰن مانڈویا لکھتے ہیں کہ ’بابری مسجد کے حادثے کے بعد اسے بابری چوک نام دینے کی کوشش کی گئی لیکن یہ چلا نہیں اور گرومندر گرومندر ہی رہا۔‘
گرومندر چورنگی اور اس علاقے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں جہاں جدید عمارتی رنگ نظر آتا ہے، وہیں 80 اور 90 سال پرانا بلکہ کہیں کہیں 100 سال پرانا طرز تعمیر بھی موجود ہے۔ یہ چورنگی تقسیم سے قبل کراچی کا ڈیفنس کہلانے والے جمشید کوارٹر پر واقع ہے۔ جہاں پارسی کالونی، عامل کالونی نمبر 1-2 اور شکارپور کالونی کے قدیم مکانات اپنی طرز تعمیر کی وجہ سے آج بھی پہچانے جاتے ہیں۔
’بلدیہ کراچی سال با سال 1844 تا 1979‘ میں بشیر سدوزی لکھتے ہیں کہ کراچی میں کوپرائیٹو ہاؤسنگ سکیم کا آغاز جمشید نوسروانجی نے 1922 میں کیا۔ اس ہی زمانے میں شہر کراچی کا تیسرا ماسٹر پلان منظور ہوا۔ جس میں دوسری اور تیسری منزل کی تعمیر کی اجازت دی گئی۔
شہر کی حد گارڈن سے بڑھا کر جمشید کواٹر ز سے ہوتی ہوئی جیل روڈ تک بڑھا دی گئی۔ یہ بھی جان لیں کہ جمشید کوارٹر، جمشید نسروانجی کے نام سے منسوب ہے جن کا پورا نام جمشید مہتا نسروانجی تھا۔ جسے اب لوگ اسے جمشید روڈ اور کچھ جمشید ٹاؤن کے نام سے پکارتے ہیں۔
گرومندر کہاں گم ہو گیا؟
اس گہما گہمی والے علاقے سے آتے جاتے ہمیشہ ہماری کوشش رہتی تھی کہ بس کی کھڑکی سے گرومندر کو دیکھیں۔ لیکن ہم نےگرومندر کبھی دیکھا نہیں۔ لیکن سوال اپنی جگہ کہ آخر یہ ہے کہاں؟
کراچی کی تاریخ اور پرانی عمارتوں میں دلچسپی کے باوجود ہمیں گرومندر کو تلاش کرنے کی جستجو رہی۔ آخرکار پورا دن لگا کر آگے پیچھے کی گلیوں میں مل ہی گیا۔ اپنے گمان کے مطابق ہم ہاسا سنگھ پارک کی طرف گرومندر کو ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ لیکن وہ مخالف سڑک پر یعنی سبیل والی مسجد کے بالکل سامنے ہی تھا۔
یہ مندر تھا یا پھر گردوارہ
جب ہم گرومندر کی عمارت کے احاطے میں داخل ہوئے تو ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ نہ تو یہ کوئی مندر ہے اور نہ ہی گردوارہ۔ اگر عمارت پر انگریزی حروف میں ’گرو مندر‘ نہ لکھا ہوتا تو ہم یقین ہی نہ کرتے کہ گرومندر کا بس سٹاپ اس عمارت کی وجہ سے مشہور ہے۔ پھراگر یہ گرومندر تھا تو گرو تو سکھوں کے ہوتے ہیں۔ ہم نے تو شہر کراچی میں گنے چنے پگڑی والے سکھ دیکھے ہیں مگر اس بس سٹاپ پر تو کبھی نہیں۔
مگر گرومندر بس سٹاپ پر یعنی گرومندر کی عمارت کے مخالف سڑک پر چھوٹا سا ہاسا سنگھ پارک بھی ہے اور سنگھ تو سکھوں کے نام کا خاصہ ہے۔ پھر کبھی خیال آتا کہ اگر گرومندر مندر تھا، تو مندر ہندوؤں کے ہوتے ہیں۔
اس ہی الجھن میں زمانہ طالب علمی گزرا اور پھر ہم نے صحافت کا شعبہ اپنا لیا۔ قدیم علاقوں اور پرانی عمارتیں سے ہماری دلچسپی برقرار رہی، کیوں کہ ہمارے والد نے صدر اور برنس روڈ کا علاقہ گھمایا تھا۔
کراچی کی قدیم عمارتوں پر اس کا نام اور سن تعمیر واضح انداز میں نقش ہے جوآج بھی اپنے مکینوں کا پتا دیتے اکثر گھروں پر اوم کا نشان کے ساتھ ہی مالکان کے نام ’رام داس‘ اور کہیں ’سندس داس‘ کندہ ہیں۔
اقبال اے رحمان مانڈویا اپنی کتاب ’اس دشت میں اک شہر تھا: کراچی کے سنہری دنوں کی داستان‘ میں کہتے ہیں کہ عموماً لوگ گرومندر سے مراد سولجر بازار کے عقب میں واقع شری پنچ مکھی ہنومان مندر لیتے ہیں۔ جبکہ کچھ لوگوں کے خیال میں اسلامیہ کالج کے ساتھ واقع شیو مندر ہی گرومندر ہے۔ بنیادی طور پر گرومندر سیبل والی مسجد کے بالکل سامنے والی عمارت ہے۔ یہ عمارت باآسانی نظروں میں نہیں آتی۔
ذوالفقار علی کھلوڑو کہتے ہیں کہ سندھ میں سکھ اور ہندو آپس میں مل کر رہتے تھے۔ ہندو گرونانک، ان کے بیٹے بابا سری چند اور دیگر گروں کا احترام کرتے اور خود کو نانک پتھی کہلانا پسند کرتے۔
Karachi During Births Raj میں رونلڈ ڈی سوزا لکھتے ہیں کہ 1941 میں کراچی میں سکھوں کی کل آبادی صرف 15فیصد تھی جبکہ ہندو آبادی 46.6فیصد تھی۔ 1931 میں کواٹرز کی آبادی میں جمشد کوارٹرز کل آبادی، 2170 تھی جس میں سے792 ہندو، 48 مسلم اور 160 دیگر مذاہب کے لوگ آباد تھے۔
بلدیہ اعظمی کراچی کے قدیم نقشے اور ریکارڈ کیا کہتے ہیں
کے ایم سی کے ریکارڈ سیکشن کے رجسٹرکے مطابق، گرومندر کا پلاٹ نمبر229 JM ہے۔ جس کا کل رقبہ 1، 181ہے۔ گرومندر کی زمین کو حیدرآبادی عامل کوپرائیٹو سوسائٹی کو سات مارچ 1938 میں بیچا گیا۔
جس کی ملکیت گرومندر ایسوسی ایشن کو منتقل کر دی گئی۔
قیام پاکستان سے پہلے ہی یعنی 23 جون 1948 کو گرمندرایسوسی ایشن کے صدر بھگوان سنگھ نے اسے آسٹریلین شہری Frederick Sidney Cotton کو بیچ دیا۔
رجسٹر ریکارڈ کے مطابق 18 دسمبر سن 50 میں اس کی ملکیت اس ہی کے نام کر دی گئی۔ اس پلاٹ کی سیل ڈیڈ پر تاریخ 16 جنوری 1951 لکھی ہے۔ جسے وزارت خزانہ نے 1961 میں خرید لیا۔ اقبال اے رحمان منڈویا لکھتے ہیں کہ گرومندر کے حوالے سے نیا موڑ اس وقت آیا جب 1974 میں ایک صاحب سید مہدی علی شاہ اور ظفر حسین نے گرومندر پر دعویٰ دائر کر دیا۔
اس کے بعد متروکہ وقف املاک کے ادارے نے بھی اس عمارت پر ملکیت کی پٹیشن درج کرا دی۔ ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ بحیثیت بھارتی شہری بھگوان سنگھ کوئی زمین بیچ نہیں سکتے، لہٰذا اسے متروکہ املاک کی ملکیت میں دیا جائے۔
عدالت نے فیصلہ ان کے ہی حق میں دیا لیکن دونوں سرکاری محکموں کے درمیان آج بھی قانونی جنگ جاری ہے۔ ہندو اور سکھ اقلیتی تنظیمیں بھی اس عمارت کی دعویدار دہیں۔ لیکن یہ فیصلہ سرکاری اداروں کے عدالتی فیصلے آنے تک رکا ہوا ہے۔
اب یہ کس حال میں ہے
جب ہم وہاں پہنچے تو ایف بی آر کا بورڈ آویزاں تھا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ کیس عدالت میں ہے۔ اور دونوں محکمے اس کے دعویدار ہیں فی الحال یہ جگہ بند پڑی ہے اور یہاں پوری منزل پر ایک خاندان آباد ہے۔ جو احاطے میں جھانکنے پر بھی گلے پڑ جاتا ہے۔ آدھی عمارت ٹوٹی ہوئی اور فرش اکھڑا پڑا تھا۔ بس ایک بند ہال پر گرومندر کے بجائے گر مندر لکھا ہوا تھا۔ سڑک کی جانب یہاں گھوڑے بندھے تھے۔ اب اس کا کرایہ کون لے رہا ہے اللہ ہی جانے۔ لیکن افسوس ہوا کہ ہم جس تجسس اور شوق کے ساتھ یہاں آئے تھے یہاں تو نقشہ ہی الٹ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سب جانتے ہیں کہ یہ مذہبی جگہ تھی۔ جسے کمیونٹی کو واپس کر دینی چاہیے تھی۔ کم از کم دل کو دھچکا تو نہ لگے۔ سکھوں نے بھی اس پر اپنا دعویٰ کیا تھا کہ گردوارہ تھا اور ہمیں اس کی ملکیت دی جائے اور ہندوؤں نے بھی۔
لال کرشنا ایڈوانی عرف ایل کے ایڈوانی کی گرومندر سے جڑی یادیں
جمشد کوارٹر کے لال کاٹج میں پیدا ہونے والے ایل کے ایڈوانی اپنی کتاب My Country My life میں لکھتے ہیں کہ سندھی ہندو گرو نانک صاحب سے عقیدت رکھتے تھے۔ اسی لیے انہیں نانک پتھی بھی کہا جاتا تھا۔ ہمارے گھر میں سب ہی اسے کبھی نہ کبھی پڑھتے تھے لیکن دادی روز گروگرنتھ پڑھتیں۔
میں نے بچپن میں سندھی اور ہندی کے ساتھ گورمکھی بھی سیکھی کیونکہ گرو گرنتھ صاحب اس ہی زبان میں پڑھی جاتی تھی ۔
انھوں نے مزید لکھا ہے کہ عامل کالونی میں موجود گرومندر کراچی کا سب سے بڑا گردوارہ تھا۔ جو ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ یہاں پر ہندو اور سکھوں کی مختلف مذہبی تقریبات منعقد ہوتیں۔
دادا چلارام جو سہاج داری سکھ سینت تھے۔ وہا ں گرو گرنتھ کی پڑھائی یعنی ’گروبانی‘ کرتے تھے۔ سکھ مذہبی رسومات آس پاس کے ہر گھر کی روزمرہ امور میں شامل تھیں۔ یہ سند ھ کی روایت میں شامل تھا کہ سکھ مندر میں اور ہندو گردوارے میں آتے جاتے تھے۔
چنائے کی مانیہ بھگت اور گرومندر کی یادیں
مانیہ بھگت کا سنہ پیدائش 1940 ہے۔ وہ کراچی میں پیدا ہوئیں۔ لیکن آج کل بھارتی شہر چنائی (سابق نام مدراس) میں رہائش پذیر ہیں۔ 84 سالہ مائنہ بھگت نے ہمیں زوم میٹنگ پر بتایا کہ وہ 2014 میں کراچی آئی تھیں۔
ان کے اس سفر کا بنیادی مقصد اپنی بچپن کی یادوں کو تازہ کرنا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ سات سال کی تھیں جب کراچی کو چھوڑ کر ان کا خاندان پہلے بمبئی اور پھر مدراس یعنی چنائی منتقل ہو گیا۔
ان کا خاندان جمشید کوارٹر کے ایک بنگلے میں رہتا تھا۔ یعنی شہر کا مشہور علاقہ گرومندر جہاں تقسیم سے پہلے ہندو اور پارسی کمیونٹی آباد تھی۔
مانیہ اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے مسکرائیں اور بتایا کہ وہ بہت چھوٹی تھیں لیکن انہیں گرو مندر یاد ہے۔ وہ ایک سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھتی تھیں اور یہ ایک سکھ عبادت گا ہ یا گردوارہ تھا۔ جہاں ان کے والد جاگ رنگ کرتے اور والدہ مختلف کھانے بنواتیں اور لنگر چلتا رہتا۔
یہاں کراچی کی ہندو اور سکھ کمیونٹی آتی تھی۔ یہاں شام کے وقت خوب رونق رہتی۔ اس وقت کراچی بہت پر امن شہر تھا۔ سنا ہے کہ اب یہاں کے قرب و جوار کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ گردوارہ کہاں ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ وہ دو دفعہ کراچی آئی ہیں۔ آخری بار 2014 میں جب آئیں تو انہیں کراچی بہت بے ہنگم اور پر ہجوم شہر لگا۔ ان کی دوست نے انہیں کراچی کا ساحل گھمایا۔ جہاں انھوں نے اونٹ والے سے سندھی میں بات بھی کی۔
سندھ کلب میں لنچ بھی کراچی کی اچھی یادوں میں سے ایک ہے۔ وہ عامل کالونی اپنے گھر بھی پہنچیں اور گرومندر بھی ڈھونڈا لیکن گھر اور گرومندر کا بس سٹاپ تو ملا لیکن گرومندر نہیں۔ کیونکہ اب شہر بدل چکا ہے اور لوگ بھی۔
پونے کی ساز اگروال
بھارتی مصنفہ ساز اگروال سندھی ہندووں کی یادوں کو جمع کر رہی ہیں۔ ان کا میکہ کراچی کا مکین تھا۔ ساز اپنی کتاب Amils of Sindh میں لکھتی ہیں کہ گرومندر بھگوان سنگھ ایڈوانی نے بنوایا تھا۔ جو بالکل اس وقت کے بندر روڈ اور کلنٹن روڈ کے کنارے پر واقع تھا۔ اسے گولڈن ٹیپل کی طرز پر سفید ماربل سے بنایا گیا تھا اور اس پر ایک گنبد بھی تھا۔
یہاں پر روز دادا چلارام ست سنگ کرتے اور گروگرنتھ پڑھی جاتی یعنی یہاں سکھوں کی مذہبی تقریبات ہوتیں۔ گرونانک کی سالگرہ والے دن وہاں لنگر چلتا اور پنڈال میں خوب رش رہتا۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ ان کی والدہ نے بتایا تھا کہ روٹ نمبر 2 کی ٹرام بس گرومندر سے گھوم کر گزرتی تھی۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ کراچی ہمیشہ سے بین الاقوامی شہر رہا ہے۔ کولاچی سے کراچی بنانے میں جہاں انگریز سرکار کے مفادات شامل تھے وہیں مقامی آبادی نے بھی اس کی ثقافتی، تعلیمی اور سماجی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا۔ بین المذاہب ہم آہنگی بھی اس شہر کا تاریخی حوالہ رہی ہے۔ گرومندر کی تاریخی عمارت اس بات کی واضح مثال ہے اور موجودہ حالات میں ہمیں مذہبی ہم آہنگی کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔