پاکستان کی سپریم کورٹ کے ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے جانے کے بعد ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے نئے سربراہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 26 اکتوبر، 2024 کو حلف برداری کے بعد ایک انتظامی فیصلے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی اب ججوں میں کوئی تقسیم نہیں۔
عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اپنی اصل حالت میں بحال کر دیا تھا، یعنی کیسز سے متعلق فیصلہ ساز کمیٹی میں سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج ایک بار پھر شامل ہو گئے، جن میں چیف جسٹس کے علاوہ دو دیگر سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل سابق چیف جسٹس نے کمیٹی میں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین کو شامل کیا تھا، لیکن پھر بھی کمیٹی منقسم نظر آئی کیوں کہ جسٹس منصور علی شاہ بھی اس کی تشکیل پر نالاں تھے۔
چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کمیٹی تو بحال کر دی، لیکن وہ اور اس میں شامل دیگر دو سینیئر جج بظاہر ایک صفحے پر نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ، جو تعطیل پر ملک سے باہر تھے، وطن واپسی پر انہوں نے اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کمیٹی کا اجلاس بلائیں لیکن ایسا نہ ہوا۔
اگرچہ چیف جسٹس کمیٹی کے کنونیئر ہیں اور انہی کے کہنے پر اجلاس بلایا جاتا ہے، لیکن پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ یہ اجازت بھی دیتا ہے کہ اگر چیف جسٹس کمیٹی کا اجلاس نہ بلائیں تو دیگر دو سینیئر ترین جج اجلاس کر سکتے ہیں۔
اس پر دونوں سینیئر ججوں نے خود ہی اجلاس کر لیا اور حال ہی میں منظور ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت فل کورٹ میں کرنے کا فیصلہ کیا۔
لیکن کیوں کہ رجسٹرار آفس چیف جسٹس کو جواب دہ ہے اس لیے ایسے کسی بینچ کی تشکیل سے متعلق کوئی کاز لسٹ جاری نہیں کی گئی اور نہ دونوں سینیئر ترین ججوں کے اجلاس سے متعلق تفصیلات سرکاری طور پر جاری کی گئیں۔
اب جبکہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو چیف جسٹس کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تو انہوں نے ایک خط لکھ ڈالا جس میں تحریر کیا گیا کہ کیوں کہ چیف جسٹس نے کمیٹی کا اجلاس نہیں بلایا تو انہوں نے طے شدہ طریقہ کار کے تحت اجلاس بلا کر 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت فل کورٹ میں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس خط کے بعد یہ نظر آ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے دو سینیئر ترین جج اور چیف جسٹس ہم آہنگ نہیں۔
واضح رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی کے علاوہ چیف جسٹس کے تقرر کا بھی نیا طریقہ کار طے کیا گیا تھا جس کے بعد ایک کمیٹی تین سینیئر ججوں میں سے کسی ایک نام چیف جسٹس کے طور پر تجویز کرتی ہے۔
کمیٹی نے سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی بجائے تیسرے نمبر پر سب سے سینیئر جج جسٹس یحیٰی آفریدی کو چیف جسٹس نامزد کیا تھا جس کے بعد وزیراعظم کی ایڈاؤس پر صدر نے انہیں اس منصب پر تعینات کر دیا۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے دور میں بھی منقسم نظر آئی اور چیف جسٹس کے بدلنے کے بعد بھی بظاہر یہ تقسیم برقرار ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب ملک کے مسائل کے حل کے لیے سب کے مل کر کام کرنے پر آئے روز سیاسی قیادت کی طرف سے بیانات سامنے آتے رہتے ہیں انصاف دینے والے سب سے بڑے ادارے میں تقسیم کی خبریں اگر خطرے کی گھنٹی نہیں تو کم از کم کسی طور پر حوصلہ افزا بھی نہیں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔