کیا عدلیہ میں ’عظیم‘ جج بھی گزرے ہیں؟

پی سی او کا حلف نہ لینا اور آئین سے جڑے رہنا، آئینی تقاضا ہے۔ کوئی جج یہ تقاضے پورے کرتا ہے تو وہ اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ یہ یقیناً ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس کا عظمت سے کیا تعلق؟ عظمت قابل بحث معاملہ ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

کیا واقعی پاکستانی عدلیہ میں کچھ ایسے لوگ گزرے ہیں جنہیں عظیم کہا جا سکے؟ احترام کے تقاضے سر آنکھوں پر اور بعض کو اچھے جج تو شاید کہا جاسکے لیکن عظیم کا جواب مکمل نہیں ہے۔ 

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

عدلیہ میں اگر واقعی کچھ عظیم لوگ گزرے ہوتے تو نظام انصاف ہی کی نہیں اس ملک کی تاریخ بھی کچھ اور ہوتی اور معاشرہ آج دیوار گریہ کا منظر نہ پیش کر رہا ہوتا۔

چند روز پہلے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جناب چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ ملک میں عظیم ججز بھی گزرے ہیں اور میرے جیسا طالب علم یہ سوچنے بیٹھ گیا کہ یہ عظیم ججز ملک میں کہاں سے گزرے ہیں؟ کہیں سے گزرے ہیں تو ہم خاک نشینوں کو دکھائی کیوں نہیں دیے؟

آنکھوں میں حیرت لیے خبر کو دوبارہ پڑھا تو معلوم ہوا کہ جناب چیف جسٹس نے ان جج صاحبان کے لیے عظیم کا لفظ استعمال کیا تھا جنہوں نے پی سی او کا حلف نہیں لیا تھا۔ دوسرا سوال اب یہ پیدا ہوا کہ کیا محض پی سی او کا حلف نہ لینے والے جج صاحبان کو عظیم جج کہا جا سکتا ہے؟

پی سی او کا حلف نہ لینا اور آئین سے جڑے رہنا، آئینی تقاضا ہے۔ کوئی جج یہ تقاضے پورے کرتا ہے تو وہ اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ یہ یقیناً ایک اچھا اقدام ہے لیکن اس کا عظمت سے کیا تعلق؟ عظمت قابل بحث معاملہ ہے۔

زیادہ سے زیادہ اسے قابل تعریف اقدام کہا جا سکتا ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ زوال نے ہمارا گھر دیکھ لیا ہے اور اخلاقی انحطاط کا عالم یہ ہے کہ اب کوئی اپنی ذمہ داری ٹھیک سے ادا کر لے تو اسے غیر معمولی کام تصور کیا جاتا ہے۔

جن جج صاحبان نے پی سی او کا حلف نہیں لیا وہ بلاشبہ اچھے جج ہوں گے۔ اچھے جج ماضی میں بھی گزرے ہوں گے اور اب بھی موجود ہوں گے لیکن عظمت بالکل ایک دوسری شے ہے اور میری جسارت کو معاف کیا جا سکے تو میں عرض کروں کہ اس معاشرے میں عظیم لوگ پیدا ہونے بند ہو چکے ہیں۔

اب بس اتنا ہوتا ہے کہ اوسط درجے کے لوگوں میں سے گاہے قدرے بہتر لوگ دستیاب ہو جاتے ہیں۔

عظمت کی دنیا ہی الگ ہے۔ اس کے پیمانے ہی جدا ہیں۔ عظمت ساون کی طرح برستی اور صبح کی طرح طلوع ہوتی ہے۔ وہ ایک جہان پر آشکار ہوتی ہے اور اسے کسی ادارہ جاتی گواہی کی حاجت نہیں ہوتی۔

حالت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی پوری تاریخ میں صرف چار جج صاحبان ایسے تھے جنہوں نے چیف جسٹس بننا تھا لیکن انہوں نے اصول کا ساتھ دیا اور یہ منصب قربان کر دیا۔ ابو صالح محمد اکرم، دراب پٹیل، سعد سعود جان اور وجیہہ الدین احمد۔ صرف چار۔ پانچویں جواد ایس خواجہ تھے جو مستعفی ہو گئے لیکن بعد میں چیف جسٹس کے منصب تک پہنچے۔

ورنہ یہاں پی سی او کے حلف لے کر لوگوں نے کتابیں لکھیں کہ میں حلف نہ لیتا تو کوئی اور لے لیتا، اس لیے میری بصیرت کی آرتی اتاری جائے۔ ملک کے وزیراعظم کو پھانسیاں دیں اور بعد میں کہا کہ کیا کرتے نوکری بچانا بھی تو ضروری تھا۔

جو بظاہر نیک نام ترین ججز ہیں ان میں سے جسٹس کارنیلیس نمایاں ہیں۔ قابل احترام شخصیت ہیں مگر یہ کیسے بھلایا جائے کہ جب یحییٰ خان صدر تھے تو یہ قابل احترام جج صاحب ان کے وزیر قانون تھے۔ یہ بھی یاد رہے کہ انہیں چیف جسٹس فاطمہ جناح نے نہیں، ایوب خان نے بنایا تھا۔

ایوب خان نے ہی انہیں کرکٹ بورڈ کا سربراہ بھی بنایا تھا۔ اس منصب پر فائز ہونے والے یہ اکیلے جج نہ تھے۔ کرکٹ کے قانونی ماہرین کی فہرست طویل ہے۔

یعنی یہاں آمروں سے وزارتیں اور عہدے صرف سیاست دانوں اور وکلا نے نہیں لیے، چیف جسٹس صاحبان نے بھی لیے۔ نگران وزیراعظم تک بن بیٹھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آئینی مزاحمت کا ایک استعارہ افتخار چوہدری رہے ہیں۔ انہیں چیف جسٹس کس نے بنایا تھا؟ جنرل مشرف نے۔ کیا انہوں نے پی سی او کا حلف نہیں لیا تھا؟ حرفِ انکار بلند کیا تو ان کے لیے غیر معمولی تحریک چلی۔ لیکن باقیوں کو تو چھوڑیے خود وکلا سے پوچھیے، کیا انہیں عظیم جج کہا جا سکتا ہے؟

نظریہ ضرورت والے جج منیر صاحب کی تو بات ہی کیا کرنی کہ ان کو لانے کے لیے جو سلوک سینیئر ترین جسٹس ابو صالح کے ساتھ ہوا، وہ ہماری تاریخ کا خوفناک باب ہے۔ پھر انہوں نے جو فیصلے کیے وہ خوفناک ہی نہیں شرمناک بھی ہیں۔

کیا کوئی یہ تصور کر سکتا ہے کہ کسی ملک کا چیف جسٹس اپنے فیصلے میں لکھے کہ بھلے ملک قائم ہوئے سات سال ہو گئے ہیں لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ملک آزاد اور خودمختار ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ قائد اعظم کے ملک کے بارے میں یہ فیصلہ دینے کا اعزاز بھی ہمارے ہی جج صاحبان کو ہوا اور ان کی تصاویر آج تک سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ون میں آویزاں ہیں۔

کاش اتنا ہی ہو جاتا کہ اپنے اپنے دور کے ایل ایف او اور پی سی او کا حلف لینے والے ججوں کی تصاویر اتار دی جاتیں یا الگ کر کے لگا دی جاتیں تاکہ ہم جیسے طالب علم دیکھ کر سمجھ تو جاتے کہ ان میں سے عظیم کون سے ہیں۔

عظمت تو بہت دور کی بات ہے یہاں عالم یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی نیک نامی کا ہمالیہ بھی پگھل کر قطرہ بن جاتا ہے۔ 

اب تو یہ حسرت ہے کہ کوئی ایسا ہو جو ریٹائر ہو تو خلق خدا گواہی دے ایک اچھا آدمی رخصت ہوا۔

سرور عالم راز بھی کہاں یاد آئے ؎

آرزو، حسرت و امید، شکایت، آنسو
اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر